1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

ایرانی صدر رئیسی کی امریکا پر شدید نکتہ چینی

22 ستمبر 2021

ایرانی صدر کی تقریر کا بیشتر حصہ امریکا پر مرکوز تھا، جس میں انہوں نے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو 'انسانیت کے خلاف منظم جرائم‘ قرار دیا۔ ادھر صدر جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کا عندیہ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/40dev
Iran Raisi im Parlament
تصویر: mizan.ir

ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں ایران اور مشرق وسطی پر عائد امریکی پابندیوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ایران اب اسی صورت میں جوہری معاہدے کی بات چیت میں شامل ہو گا جب یہ بات چیت اس پر عائد پابندیوں کا ازالہ کرنے میں مدد گار ثابت ہوں۔

ان کی تقریر پہلے سے ریکارڈ شدہ تھی جس میں انہوں نے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو، ''انسانیت کے خلاف منظم جرائم'' قرار دیا اور کہا کہ ایک ایسے وقت جب کورونا وائرس کی وبا پھیل رہی تھی اس وقت بھی یہ پابندیاں عائد رہیں جس سے بیرونی ممالک سے ویکسین کی در آمدبھی متاثر ہوئی۔

ان کا اشارہ ان امریکی پابندیوں کی جانب تھا جب سن 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر امریکا کو جوہری معاہدے سے الگ کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران اسی صورت میں ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات میں حصہ لے گا، جب وہ پابندیاں ختم کرنے کا باعث بنیں۔

 واضح رہے کہ اس برس جولائی کے اواخر سے جوہری مذاکرات ٹھپ پڑے ہیں کیونکہ نئے ایرانی صدر نے اپنی کابینہ تشکیل دینے کے لیے مہلت طلب کی تھی اور کہا تھا کہ مکمل حکومت سازی کے بعد ہی وہ دوبارہ اس میں شامل ہوں گے۔

ایرانی صدر نے ایک بار پھر سے ملک کے جوہری پروگرام کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ یہ پر امن مقاصد کے لیے ہے اور اس کی ملک کے دفاعی حکمت عملی میں قطعی طور پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''وہ سائنس جو انسانیت کی بھلائی کے لیے ہو وہ پابندیوں سے مبرا ہوتی ہے۔''

مذاکرات دوبارہ جلد شروع ہونے کا امکان

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق ویانا مذاکرات بہت جلد شروع ہو سکتے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس برس کے اوائل میں ویانا میں امریکا کے اتحادی یورپی ممالک کے ساتھ جوہری مذاکرات کا آغاز ہوا تھا جس میں امریکی حکام بھی بالواسطہ طور پر شامل تھے۔ تاہم جولائی سے یہ بات چیت تعطل کا شکار ہے۔

ایرانی صدر کے خطاب کے فوری بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، ''ہر میٹنگ میں پیشگی ہم آہنگی اور ایجنڈے کی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے زور دیا جا چکا ہے، ویانا مذاکرات جلد اور اگلے چند ہفتوں میں دوبارہ شروع ہوں گے۔''

New York UN Vollversammlung | Rede Präsident Joe Biden
تصویر: EDUARDO MUNOZ/REUTERS/AFP

امریکا جوہری معاہدے میں واپسی کا متمنّی

اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اس بات کا واضح اشارہ دیا کیا کہ اگر ایران بھی ایسا کرنے کے لیے راضی ہو تو امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں مکمل طور پر واپسی کے لیے تیار ہے، اور اس کے لیے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام بھی کر رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا، '' امریکہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے... اگر ایران ایسا کرتا ہے تو ہم (معاہدے) کی مکمل تعمیل پر واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔'' 

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس معاملے میں چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور مشترکہ جامع منصوبے کے نام سے اس، ''معاہدے میں واپسی کے لیے ایران کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت بھی کر رہا ہے۔''

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں