1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی کھلاڑیوں نے میچ سے قبل اپنا قومی ترانہ نہیں گایا

22 نومبر 2022

فیفا ورلڈ کپ میں ایرانی ٹیم کا پہلا میچ انگلینڈ کے ساتھ ہوا۔ ایرانی کھلاڑیوں نے اپنے ملک میں حکومت مخالف مظاہروں کی واضح حمایت کے اظہار میں قومی ترانہ گانے سے انکار کر دیا۔

https://p.dw.com/p/4JqyA
Fußball-WM Katar 2022 | England v Iran
تصویر: Sebastian Frej/MB/IMAGO

روایتاً کسی بھی میچ سے قبل ٹیمیں تمام کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر، اس وقت اپنا قومی ترانہ گاتی ہیں، جب اسے بجایا جاتا ہے۔ تاہم ایرانی کھلاڑیوں نے انگلینڈ کے ساتھ اپنے پہلے میچ سے قبل ایسا نہیں کیا اور جب ترانہ بجایا گیا تو، وہ خاموش کھڑے رہے۔

شمالی عراق: ایران کی احتجاجی تحریک کا ایک نیا مرکز؟

اس موقع پر بعض شائقین نے بھی ترانے کے دوران نعرے لگائے اور طنز کیا جبکہ بہت سے دوسرے افراد نے ''عورت، زندگی اور آزادی'' کے پلے کارڈ کے ساتھ ہی یہ نعرہ بھی بلند کیا۔  ایران میں حالیہ مظاہروں کے دوران یہ نعرہ کافی مقبول ہے اور حکومت کی مخالفت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔  

ایران  کے سرکاری ٹی وی نے میچ کی کوریج کے دوران ترانے کی اس تقریب کو نشر کرنے کے بجائے اسے کٹ کر دیا اور پہلے دکھائے گئے اسٹیڈیم کے وسیع تر شاٹس میں تبدیل کر دیا۔ پھر جب میچ شروع ہوا تو دوبارہ اس نے نشریات شروع کیں۔

 ایرانی حکومت  نے حالیہ مہینوں میں ہونے والے بڑے پیمانے کے مظاہروں کو روکنے کے لیے شدید کریک ڈاؤن کیا ہے، جس میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ ایرانی عوام حکومت کے اس سخت رویے سے کافی نالاں ہے۔

ایرانی کپتان کا اعتراف

کھیل سے پہلے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی ٹیم کے کپتان احسان حاج صافی نے کہا کہ ٹیم کے کھلاڑی مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی ''حمایت'' کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ''انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں، ہم ان کی حمایت کرتے ہیں اور ہم ان کے ساتھ ہمدردی بھی رکھتے ہیں۔''

ٹیم کے مینیجر کارلوس کوئروز نے کہا ہے کہ ان کے کھلاڑی اپنے ملک میں خواتین کے حقوق پر ''احتجاج کرنے کے لیے آزاد'' ہیں جب تک کہ یہ ''ورلڈ کپ کے ضوابط اور کھیل کی روح کے مطابق ہو۔''

ان کا مزید کہنا تھا: ''ہر کوئی حالات سے واقف ہے، میرے کھلاڑیوں کا ماحول، عزم اور توجہ کے لحاظ سے مثالی نہیں ہے، اور وہ بھی اس معاملے سے متاثر ہیں۔ وہ بھی انسان ہیں اور وہ تو بچے ہیں۔''

ایران کے کھلاڑیوں نے ستمبر میں جب دو وارم اپ انٹرنیشنل میچ کھیلے تھے، تو اس وقت اپنی قومی ٹیم کے بیج کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔

میچ سے آگے کی بات ہے

اس موقع پر ایران کے ہزاروں شائقین دوحہ کے خلیفہ انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں موجود تھے اور گرچہ ایران کو 6-2 سے شکست ہوئی، لیکن کک آف سے بہت پہلے یہ واضح تھا کہ یہ بین الاقوامی فٹ بال کے دوسرے کھیل سے کہیں زیادہ اہم تھا۔

اسٹیڈیم سے باہر نکلتے ہی کچھ شائقین نے خوشی کا اظہار کیا۔ بعض نے ایسی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جس پر لکھا تھا: ''عورت، زندگی، آزادی''۔ ہاف ٹائم کے دوران تک انہیں نعروں کے ساتھ ایک ایرانی پرچم بلند رہا۔

ایک اور مداح نے ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا: ''75 ملین۔ ہم تبدیلی چاہتے ہیں، لیکن ایسی تبدیلی نہیں، جو ایران کی تباہی کا باعث بنے۔'' ایک لڑکی اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھڑی خوشی سے تصویریں کھینچ رہی تھی۔

Fußball-WM Katar 2022 | England v Iran
ایرانی ٹیم کے کپتان احسان حاج صافی نے کہا کہ ٹیم کے کھلاڑی مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی ''حمایت'' کرتے ہیںتصویر: Han Yan/Xinhua/IMAGO

 اصل میں کھیل میں شرکت کرنے والے بہت سے شائقین کے لیے، یہ ایک جذباتی لمحہ تھا۔ ایک شائق روزیتا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایرانی حکومت ہمیں مارتی ہے۔ میں یہاں اس لیے ہوں کیونکہ انہوں نے ہمارے بچوں کو مارا ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا: ''میں یہاں صرف ایران کے لیے ہوں، اپنے ملک کے لیے، ایرانی حکومت کے لیے نہیں۔ ہم ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمیں علی کریمی، علی دائی، ہمیں وہ تمام لوگ پسند ہیں جو ایرانی عوام کی حمایت کرتے ہیں، نہ کہ وہ لوگ جو ایرانی عوام کے مخالف  ہیں۔''

ایران میں مظاہروں کا سلسلہ

ایران میں حکومت مخالف مظاہرے 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی دوران حراست ہونے والی موت کے بعد ستمبر کے وسط میں شروع ہوئے تھے۔ ایران کی اخلاقی پولیس نے مہسا امینی کو  مبینہ طور پرحجاب کے سخت قوانین کو توڑنے کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایران کی سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں اب تک 400 سے زیادہ مظاہرین ہلاک اور 16,800 دیگر کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ایرانی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے تہران کے غیر ملکی دشمنوں کے ذریعے کرائے جا رہے ہیں اور وہ اسے ''فساد'' قرار دیتے ہیں۔

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے