ایردوآن کا ماکروں مخالف بیان ’گری ہوئی بات،‘ جرمن وزیر خارجہ
26 اکتوبر 2020ترکی اور فرانس کے پہلے ہی سے کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ اُس وقت بڑھا جب ایک فرانسیسی استاد کو ایک مسلم انتہا پسند نے پیغمبر اسلام کا ایک خاکہ دکھانے کے رد عمل میں قتل کر دیا۔ اس انتہا پسندانہ واقعے کے بعد یورپ بھر میں مسلم انتہا پسندی کے بارے میں سیاسی اور عوامی سطح پر بھی سخت غم و غصہ دیکھا گیا۔ فرانسیسی استاد کا ایک اٹھارہ سالہ چيچین مہاجر نوجوان نے سر قلم کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے پیرس حکومت نے مسلم انتہا پسندی کے خلاف سخت بیانات دینا شروع کیے اور صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا، ''مسلم انتہا پسندی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے جائیں گے۔‘‘ صدر ماکروں نے بدھ 21 اکتوبر کو شدت پسند اسلام پسندوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان خاکوں کا سلسلہ روکا نہیں جائے گا۔‘‘ صدر ماکروں کے بقول، ''اس معاملے میں پیچھے ہٹنے کی پالیسی اختیار نہیں کی جائے گی۔ ‘‘
اس پر ترک صدر نے اپنے فرانسیسی ہم منصب کے بیانات پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا، ''ماکروں کو دماغی معائنے کی ضرورت ہے۔‘‘ ایردوآن نے مزید کہا تھا، ''یورپی لیڈروں کو چاہیے کے وہ فرانس کے صدر سے کہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی بند کریں۔‘‘ اس کے جواب میں فرانس نے انقرہ سے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا۔ ایردوآن کے بیانات پر مغربی ممالک میں خاصی ناراضگی پائی جاتی ہے۔
آج پیر کو جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ایک بیان میں کہا کہ ایردوآن فرانسیسی صدر پر ذاتی حملے کر رہے ہیں جو ناقابل قبول ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں ڈوئچے ویلے کی طرف سے کیے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہ فرانس نے انقرہ سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے، کیا جرمنی کی طرف سے بھی اس قسم کے اقدامات متوقع ہیں، ہائیکو ماس کا کہنا تھا،''ہم اپنے فرانسیسی ساتھیوں کے ساتھ قریبی رابطوں میں ہیں۔ انہوں نے یہ اقدام اٹھانے سے پہلے ہمیں پیشگی اطلاع دے دی تھی۔ ہم فرانس کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں، صدر ماکروں پر ترک صدر کے ذاتی حملے کے سلسلے میں بھی۔‘‘
ترکی اور فرانس کے مابین کشیدگی میں غیر معمولی اضافے کے سلسلے میں برلن میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ترک صدر کے بیانات کے حوالے سے مزید کہا، ''میرے خیال میں یہ ذاتی حملوں کا ایک نیا پست درجہ ہے،جو قطعاً قابل قبول نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم مسلم انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں فرانس کے ساتھ مکمل یکجہتی دکھا رہے ہیں خاص طور سے گزشتہ ہفتے وہاں ہونے والے دہشت گردی کے گھناؤنے واقعے کے بعد۔‘‘
برلن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ نے کہا کہ میرکل نے صدر ایردوآن کے فرانسیسی صدر کے بارے میں بیانات کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا، ''یہ بدنامی کا باعث بننے والے تبصرے ہیں، جو مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں، خاص طور سے ایک انتہا پسند جنونی مسلمان کے ہاتھوں فرانسیسی استاد سیموئل پیٹی کے قتل کے پس منظر میں۔‘‘
دریں اثناء سیموئل پیٹی کے سفاکانہ قتل پر انقرہ حکومت کی جانب سے مذمت نہ کیے جانے پر پیرس کی طرف سے اظہار مایوسی کے بعد ترک حکومت نے پیر 26 اکتوبر کو صدر رجب طیب ایردوآن کی طرف سے ان کے ترجمان ابراہیم کالین کے ذریعے ایک مذمتی پیغام جاری کیا۔ ایردوآن کے ترجمان نے ایک ٹویٹ پر ترک صدر کا یہ پیغام لکھا، جس میں کہا گیا ہے، ''ہم فرانسیسی استاد سیموئل پیٹی کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس بربریت کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ اس قتل کا کوئی جواز نہیں تھا۔‘‘
اس قتل کے بعد فرانس ميں مسلمانوں کے حوالے سے دوبارہ ایک بحث چھڑ گئی ہے اور پيرس حکومت نے مساجد پر مقابلتاﹰ زيادہ کنٹرول جيسے متعدد اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔
ک م / م م (ڈی ڈبلیو، اے ایف پی)