ایشیا کپ کرکٹ: پاکستان کی ناکامیوں کا تسلسل
24 جون 2010کرکٹ کے ایشیا کپ میں میزبان سری لنکا اور روایتی حریف بھارت کے خلاف پاکستانی ٹیم جیتی ہوئی بازیاں ہار گئی ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے آل راؤنڈر سہیل تنویر نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ گز شتہ چند ماہ سے ’فنشنگ‘ کا فقدان پاکستانی ٹیم کی ناکامیوں کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستانی ٹیم زیادہ وقت کھیل میں فیورٹ رہنے کے بعد آخر میں نتیجہ اپنے حق میں نہیں کر پاتی۔ ’’بھارت کے خلاف بھی یہی ہوا اور آخری ساڑھے چار اوورز میں ہم 48 رنز کا دفاع بھی نہ کر پائے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ نئے کھلاڑیوں کی طرف سے دباؤ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہو رہی ہو۔ ’’البتہ کچھ بھی ہو، ہمیں میچ کو کامیابی سے ختم کرنے کا فن سیکھنا ہوگا۔‘‘
اپریل 1986میں عظیم جاوید میانداد نے چیتن شرما کی گیند پر جب شارجہ کا تاریخ ساز چھکا لگایا تھا تو اس کے بعد فیصلہ کن مرحلے پربازی پلٹنا پاکستانی ٹیم کی پہچان بن گیا تھا۔ کولکتہ میں سلیم ملک کی طلسماتی اننگز ہو، انضمام الحق کا 1992 کے ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں طوفان بن جانا ہو یا پھر وسیم، وقار اور ثقلین مشتاق کی باؤلنگ کا جادو، دنیا کی ہر ٹیم کے خلاف پاکستان کو متواترناقابل یقین فتوحات ملتی رہی ہیں۔
اب لیکن گنگا الٹی بہنا شروع ہو چکی ہے۔ رواں برس کا سڈنی ٹیسٹ ہو، آسٹریلیا کےخلاف حالیہ عالمی کپ کا سیمی فائنل یا دمبولہ میں ایشیا کپ، پاکستانی امیدوں کا سفینہ وہاں ڈوبا جہاں پانی کم تھا۔ آخرشاہد آفریدی اینڈ کمپنی کے لئے ہر بار لب بام دو چار ہاتھ ہی کیوں رہ جاتا ہے اور وہ میچ کو اپنے حق میں ’فنش‘ کیوں نہیں کر پا تے؟ اس ضمن میں میو ہسپتال لاہور کے شعبہ فزیکل (سپورٹس) میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر خالد جمیل اختر کا کہنا ہے کہ موجودہ ٹیم میں جسمانی فٹنس اور صلاحیت کی تو کمی نہیں البتہ مینٹل فٹنس کی کمی ضرور ہے۔ ’’ہمارے کھلاڑی ذہن پر دباؤ سوار کرنے (سٹریس لینے) کے عادی ہو چکے ہیں مگر انہیں اس سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا جا تا۔ اسی لئے وہ جیتے ہوئے میچ ہار رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر خالد جمیل اختر نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’ہمارے کھلاڑیوں میں ہر وکٹ گرنے پر دباؤ کی وجہ سے سڑیس بڑھتا جاتا ہے۔ وہ صحیح فیصلے کرنے کی قوت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ غیر یقینی سلیکشن اور ڈریسنگ روم کے ماحول سمیت کئی اور عوامل ایسے ہوسکتے ہیں، جن کی وجہ سے یہ صورتحال جنم لیتی ہے۔
ڈاکٹر اختر نے بتایا کہ کھلاڑیوں کو اس بات کا اطمینان ہونا چاہیے کہ ٹیم میں ان کی جگہ بنے گی تاکہ ان کے سر وں پر غیر یقینی صورت حال کی تلوار ہر وقت نہ لٹکتی رہے۔ اعصابی دباؤ یا سٹریس سے بچنے کے لئے کرکٹرز کو ٹورنامنٹ سے قبل اور اس کے دوران مشاورت کی صورت میں مینٹل فٹنس کے بار ے میں لیکچر ز بھی دیے جانے چاہیئں۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہی کھلاڑی پاکستانی کرکٹ کا چہرہ بدل سکتے ہیں۔
ڈاکٹر خالد جمیل اختر نےمزید کہا کہ اس وقت پاکستانی ٹیم کو کسی عام ماہر نفسیات کی ضرورت نہیں بلکہ کسی ایسے سپورٹس فزیشن کی ضرورت ہے، جوسپورٹس سائیکالوجی سمیت تمام امور پر دسترس رکھتا ہو۔ ’’ہمارا شعبہ اب تک ایم بی بی ایس کے بعد پانچ سال کی ٹریننگ دے کر اعلیٰ ترین ڈگری کے حامل سات سپورٹس فزیشن تیار کر چکا ہے۔ مگر بد قسمتی سے اپنے وطن میں پذیرائی نہ ملنے پر ایسے تمام ماہرین دیار غیر جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔حال ہی میں ہمار ے تیار کردہ ایک سپورٹس فزیشن کے ساتھ انگلینڈ کی سرے کاؤٹنی کی کرکٹ ٹیم نے معاہدہ کر لیا۔ ہم سے پاکستان کرکٹ بورڈ رابطہ کرے تو ہم ٹیم کی یہ مشکل حل کر سکتے ہیں۔ ‘‘
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: عبدالستار