ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے حکومتی ٹرسٹ کا قیام
5 فروری 2020وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک خود مختار ٹرسٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ خود مختار ٹرسٹ 'شری رام جنم بھومی تیریتھا شیترا' ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر سے متعلق تمام فیصلے کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہو گا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمان میں کہا ہے کہ ایودھیا میں منہدم بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک ایسا ٹرسٹ تشکیل دیا گیا ہے جو آزادانہ طور پر تعمیراتی کام کی نگرانی کرےگا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور رام مندر سے متعلق اپنے تاریخی فیصلے میں مرکزی حکومت کو مندر کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ بنانے کے لیے تین ماہ کا وقت دیا تھا جو نو فروی کو ختم ہورہا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے تناظر میں حکومت نے کافی غور خوض اور بات چیت کے بعد ریاست اتر پردیش کی حکومت کو ایودھیا میں پانچ ایکڑ اراضی سنی وقف بورڈ کو دینے کی درخواست کی تھی اور ریاستی حکومت نے بھی اس پر اپنی رضامندی ظاہر کی ہے۔
واضح رہے کہ عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں بابری مسجد کی زمین رام مندر کی تعمیر کے لیے دیدیا تھا اور مسجد کی تعمیر کے لیے مسلمانوں کو کسی اور مقام پر پانچ ایکڑ زمین دینے کی ہدایت کی تھی۔ ریاستی حکومت نے جو پانچ ایکڑ زمین دی ہے اسے مسلمانوں نے قبول کرنے انکار کردیا ہے۔
ریاست اترپردیش کی حکومت کے وزیر شری کانت شرما نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ حکومت نے لکھنؤ اور ایودھیا کے درمیان شاہرہ پر تحصیل سوہاؤل کے ایک گاؤں دھنی پور میں پانچ ایکڑ زمین مسجد کی تعمیر کے لیے دی ہے۔ یہ زمین ریاستی سنی وقف بورڈ کو الاٹ کی گئی ہے جو حکومت کے ماتحت ادارہ ہے۔
مسلم تنظیمیں اور رہنماؤں نے بابری مسجد کی مقام کے تبادلے میں کسی بھی زمین کو لینے سے پہلے ہی انکار کر رکھا ہے۔ سرکردہ سیاسی رہنما اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اس اعلان کے فوری بعد اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ یوپی وقف بورڈ سے اس زمین کو فوری طور پر مسترد کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سرکردہ رکن اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی سے وابستہ قاسم رسول الیاس نے اس اعلان کے بعد ڈی ڈبلیو سے بات چيت میں کہا کہ مسلم تنظیمیں تو پہلے ہی اس پیشکش کو مسترد کر چکی ہیں۔ "ہم سپریم کورٹ میں اپنی بابری مسجد کی زمین کے لیےگئے تھے لیکن اس نے ہمارے ساتھ حق تلفی کی اور ہماری اراضی دوسروں کے حوالے کر دی۔ اب اگر حکومت کے زیر اثر ریاستی سنی وقف بورڈ کچھ کرے تو یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔ مسلم تنظیموں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔"
چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کے آئینی بنچ نے مستقل چالیس روز کی سماعت کے بعد بابری مسجد اور رام مندر کیس پرگزشتہ نو نومبر کو ایک متفقہ فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت نے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے لیے دی تھی اور کہا تھا کہ مسجد کے لیے سنی سنٹرل وقف بورڈ کو اس زمین میں سے پانچ ایکڑ دی جا سکتی ہے جسے حکومت نے سن 1993 کے ایودھیا ایکٹ کے تحت اپنے قبصے میں لیا تھا یا پھر ریاستی حکومت ایودھیا میں ہی زیادہ موزوں اور نمایاں پلاٹ کا انتخاب کرسکتی ہے۔
ستائیس برس قبل چھ دسبمر سن 1992ء کو ہندو حملہ آوروں نے مغل بادشاہ بابر کے ایک جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تقریبا ساڑھے چار سو برس قدیم تاریخی بابری مسجد کو دن دہاڑے منہدم کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس مسجد کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک طویل عدالتی جد و جہد کی تاہم گزشتہ نومبر میں سپریم کورٹ نے اس پر اپنا فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی بتا کر بھی اراضی کی ملکیت اُسی ہندو فریق کو سونپ دی، جو مسجد کی مسماری کی ذمہ دار تھی۔