ایٹمی راز: ’شمالی کوریا نے پاکستانی فوجی افسران کو رشوت دی‘
7 جولائی 2011اپنی بدھ کی اشاعت میں اس جریدے نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات کا حوالہ دیا ہے، جن کے مطابق ڈاکٹر خان غالباً فوج کے اُن سینئر افسران کو 3 ملین ڈالر سے زیادہ کی رقوم کی منتقلی میں معاون ثابت ہوئے، جنہوں نے بعد ازاں شمالی کوریا کو درپردہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق شمالی کوریائی حکام نے 1998ء میں ڈاکٹر خان کو ایک خط لکھا تھا، جس میں رقوم کی اس منتقلی کی تفصیلات درج ہیں۔ ڈاکٹر خان نے اس خط کی ایک نقل ایک سابق برطانوی صحافی سائمن ہینڈرسن کو دی تھی، جس نے آگے یہ نقل واشنگٹن پوسٹ کو فراہم کر دی۔
اِس امریکی جریدے نے مغربی دُنیا کے انٹیلیجنس حکام کا حوالہ دیا ہے، جنہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ خط اصلی ہے لیکن ساتھ ہی اس جریدے کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی حکام نے ڈاکٹر خان کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے اس خط کو جعلی قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے کیونکہ اُنہوں نے اسلامی دُنیا کا پہلا ایٹم بم تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ پاکستانی حکام اور اس جوہری سائنسدان کے درمیان تعلقات ایک طویل عرصے سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں کیونکہ حکام کا اصرار یہ ہے کہ ایٹمی رازوں کی منتقلی کا کام ڈاکٹر خان نے اکیلے ہی انجام دیا تھا۔
2004ء میں ڈاکٹر خان نے قومی ٹیلی وژن پر اعتراف کیا تھا کہ اُنہوں نے ایٹمی راز شمالی کوریا، ایران اور لیبیا کو فراہم کیے تاہم بعد میں اُنہوں نے اپنا یہ اعترافی بیان واپس لے لیا تھا۔ 2009ء میں اُن کی نظر بندی ختم کر دی گئی تاہم اُنہیں ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وہ خاموشی اختیار کریں اور بہت زیادہ منظر عام پر نہ آئیں۔
ڈاکٹر خان کے نام لکھے گئے اس خط پر 15 جولائی سن 1998ء کی تاریخ اور ’سیکرٹ‘ کے الفاظ درج ہیں۔ غالباً اس پر شمالی کوریا کی ورکرز پارٹی کے سیکرٹری Jon Byong کے دستخط ہیں۔ خط میں لکھا ہے کہ ایک پاکستانی فوجی افسر کو ’تین ملین ڈالر ادا کر دیے گئے ہیں‘ اور ایک دوسرے فوجی افسر کو ’نصف ملین ڈالر‘ اور کچھ زیورات دے دیے گئے ہیں۔
خط میں مزید لکھا ہے:’’براہ کرم جن دستاویزات اور اجزاء پر اتفاق ہوا تھا، وہ (اسلام آباد میں شمالی کوریائی سفارت خانے کے) حوالے کر دی جائیں تاکہ جب ہمارا طیارہ میزائلوں میں استعمال ہونے والے اجزاء کی فراہمی کے بعد واپس لوٹے تو اِنہیں اپنے ساتھ لیتا آئے۔‘‘
ہینڈرسن کے نام لکھے گئے تحریری نوٹس میں ڈاکٹر خان نے بیان کیا ہے کہ کیسے یہ نقد رقوم ایک کینوس بیگ کے ساتھ ساتھ ایسے ڈبوں میں بھی رکھ کر فراہم کی گئیں، جن میں سے ایک ڈبے میں یہ رقوم پھلوں کے نیچے چھپائی گئی تھیں۔
بتایا گیا ہے کہ ایک سابق فوجی سربراہ جہانگیر کرامت نے تین ملین ڈالر جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار خان نے نصف ملین ڈالر اور زیورات وصول کیے۔ واشنگٹن پوسٹ کے استفسار پر ان دونوں سابق فوجی افسران نے اِس خط کو جعلی قرار دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق واشنگٹن پوسٹ میں اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کو اور ہوا مل سکتی ہے۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی
ادارت: افسر اعوان