’ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی پاکستانی کوشش کچل دی جائے گی‘
23 دسمبر 2010امریکی قانون کے مطابق ملکی سلامتی کے حوالے سے خفیہ دستاویزات کو 30 برس بعد منظر عام پر لایا جا سکتا ہے۔ جارج واشنگٹن یورنیورسٹی میں موجود نیشنل سکیورٹی آرکائیو کی طرف سے حاصل کردہ ایسی ہی خفیہ دستاویزات کے مطابق بھارت کی طرف سے یہ دھمکی جوہری ہتھیاروں سے پاک جنوبی ایشیا کے حوالے سے امریکی کوششوں میں ناکامی کے تناظر میں دی گئی تھی۔
قبل ازیں ایسی ہی عام کردہ خفیہ دستاویزات سے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے 1977 سے لے کر 1981 تک کے اپنے دور حکومت میں پاکستان کو اس کے جوہری پروگرام سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی تاہم کارٹر انتظامیہ کو بعد ازاں اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ وہ پاکستان کو اس سے روک نہیں پائے گی، کیونکہ پاکستان اپنے روایتی حریف بھارت کے مقابلے میں کسی بھی طور کمزور رہنے پر تیار نہیں تھا۔
عام کی جانے والی ان دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کارٹر انتظامیہ نے بھارتی حکومت کو بھی اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ جنوبی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کیا جائے۔ تاہم اس وقت کے بھارتی صدر ڈیسائی نے ایک امریکی سفارت کار سے اپنی ملاقات میں اس تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب دیگر اہم ممالک کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں، تو بھارت کی طرف سے ان کے حصول سے دستبردار ہو جانا قابل عمل نہیں ہے۔ صدر ڈیسائی نے اس موقع پر اسلام آباد کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے دستبرداری کے حوالے سے بھی شکوک کا اظہار کیا تھا۔
ان 30 برس پرانی خفیہ لیکن اب عام ہو جانے والی دستاویزات میں امریکی سفارت کار رابرٹ گوہین کا 1979 میں لکھا جانے والا ایک مراسلہ بھی شامل ہے جس کے مطابق بھارتی صدر ڈیسائی نے ایک پاکستانی خصوصی نمائندے کو پیغام دیا تھا، ’’بھارت پاکستان کے بارے میں صرف اچھے عزائم رکھتا ہے، تاہم اگر پاکستان نے کسی قسم کی چالبازی کی کوشش کی تو ہم تمہیں کچل کر رکھ دیں گے۔‘‘
پاکستانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ کو بھی تشویش تھی اور اس حوالے سے اسلام آباد متعینہ اس وقت کے امریکی سفیر آرتھر ہُمل نے اس دور کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کو کہوٹہ کی خلائی سیارے سے لی جانے والی تصاویر دکھا کر امریکی تحفظات کا اظہار کیا تھا جسے جنرل ضیا نے انتہائی مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے امریکی انسپکٹرز کی طرف سے کہوٹہ تنصیبات کے معائنے کی پیشکش بھی کر دی تھی۔ تاہم یہ پیشکش کبھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔
امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات 1979ء میں روس کی طرف سے افغانستان پر حملے کے بعد یکسر ہی تبدیل ہوگئے اور پاکستان امریکہ کا ایک اہم اتحادی بن کر سامنے آیا۔ پاکستان کی مدد سے امریکی خفیہ اداروں نے کمیونزم کے مخالف مسلمان جہادیوں کو استعمال کرتے ہوئے آخر کار روس کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک