ایک لاکھ ایکڑ زرعی اراضی پر کاشت کی گئی فصلیں تباہ
17 اپریل 2019ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں سرکاری ادارے حالیہ غیر معمولی بارشوں سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر زراعت نے ایک لاکھ ایکڑ پر کاشت گئی گندم کی فصل کو نقصان پہنچنے کا انکشاف کیا ہے۔ ڈی ڈبلیوسے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ملک نعمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں زیادہ نقصان بہاولپور، ڈی جی خان اور ملتان کے علاقوں کے زرعی رقبے پر دیکھنے میں آیا تھا اور سرکاری سروے کے مطابق اس وقت 35 ہزار ایکڑ رقبے پر موجود فصلوں کو نقصان پہنچا تھا۔ ملک نعمان کے مطابق، ’’منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو ہونے والی شدید بارشوں سے لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد ڈویزنز میں بھی زرعی فصلیں تباہ ہوئی ہیں، اگرچہ اس سلسلے میں حتمی سروے شروع کر دیا گیا ہے لیکن ابتدائی اندازوں کے مطابق ان بارشوں سے متاثر ہونے والے زرعی رقبہ ایک لاکھ ایکڑ تک ہو سکتا ہے۔‘‘
پنجاب میں اس سال گندم کی غیر معمولی پیداوار کی توقع کی جارہی تھی۔ صوبائی محکمہ زراعت کے ڈائرایکٹر جنرل (توسیع) ڈاکٹر انجم علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ صورتحال الارمنگ تو ہے لیکن اس سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اگر بارشوں کا سلسلہ رک جائے اور کاشتکار ٹوٹی ہوئی فصل سے اناج حاصل کرنے کے مؤثر طریقے اپنائیں تو اس سے بھی کسی حد تک نقصان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ’’پنجاب میں گندم کے پیداواری ٹارگٹ کو حاصل کرنا مشکل تو ہو گا لیکن توقع ہے کہ یہ کمی بہت زیادہ نہیں ہوگی۔‘‘ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ آئندہ ہفتے بارشوں کا ایک اور سیلابی سلسلہ پاکستان میں داخل ہونے والا ہے اس لیے کاشت کاروں کو بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب حکومت نے شدید بارشوں کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر صوبے بھر میں انتظامیہ، پولیس اور امدادی سرگرمیوں سے متعلقہ اداروں کو آئندہ دنوں میں کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔
پاکستان میں قدرتی آفات کے حوالے سے قائم کیے گئے وفاقی ادارے این ڈی ایم اے نے ان بارشوں کی وجہ سے ہونے والے حادثات میں 49 افراد کے جاں بحق ہونے اور 176 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ان بارشوں کی وجہ سے 117 گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
دوسری طرف حالیہ بارشوں سے متاثر ہونے والے لوگوں نے آفت زدہ علاقوں کے لیے ریلیف پیکج کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں کاشتکاروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کسان بورڈ پاکستان کے مطابق حالیہ بارشوں کی وجہ سے ملک کے زرعی شعبے کو بہت نقصان پہنچا ہے، کئی علاقوں میں گندم اور مکئی کی تیار فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ ژالہ باری کی وجہ سے گندم کی فصل کے پودے کے سٹے الگ ہو گئے ہیں، کئی جگہوں پر کٹی ہوئی فصل کھیتوں میں پانی بھر جانے سے خراب ہو گئی ہے۔ کسان بورڈ کے مطابق بارش کے ساتھ آنے والی تیز آندھی کے باعث آم کے درختوں سے پھل گر جانے کی وجہ سے آم کی فصل بھی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور وسطی پنجاب میں سبزی کے کاشت کاروں نے بھی سبزیوں کی فصلوں کو نقصان پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل شوکت علی چدھڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان حالات میں اگر حکومت نے کاشت کاروں کو امدادی پیکج نہ دیا تو اس سے اگلی فصلوں کی کاشت متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ غریب کاشت کاروں کی فصلوں کی تباہی کے بعد نہ تو ان کے پاس تباہ ہو جانے والی پچھلی فصل کے لیے ادھار پر حاصل کی جانے والی زرعی ادویات وغیرہ کے پیسے چکانے کی ہمت ہے اور نہ ہے وہ اگلی فصل کے لیے بیج، کھادیں اور زرعی ادویات خرید سکتے ہیں۔ اس لیے چاول اور کپاس کی کاشت متاثر ہو سکتی ہے۔‘‘
بعض اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ بارشوں سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کے بعد ملک میں گندم کی پیداوار کا ہدف پورا ہونا مشکل ہو جائے گا بلکہ اس سے مارکیٹ میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کا بھی امکان ہے۔
ضلع خانیوال میں پیر والی کے علاقے میں موجود عبدالقیوم نیازی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس نے 50 ایکڑ اراضی ٹھیکے پر لے کر آٹھ ایکڑ زمین پر مکئی اور 42 ایکڑ پر گندم کاشت کی تھی: ’’ایک ایکڑ پر میرے 55 ہزار روپے خرچ آیا تھا، میں نے قرضہ لے کر یہ سرمایہ کاری کی لیکن حالیہ بارشوں اور شدید ژالہ باری کی وجہ سے سب کچھ برباد ہو گیا۔ مکئی کی پوری فصل تباہ ہو گئی جبکہ 50 من فی ایکڑ پیداوار دینے والے گندم کے کھیتوں سے 10 من فی ایکڑ پیداوار کی بھی توقع نہیں ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ سرکار کی طرف سے کسی نے ہماری خبر تک نہیں لی اور ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘
جنوبی پنجاب کے ایک کاشت کار ظہیر عباس نے بتایا کہ حالیہ بارشوں سے میاں چنوں کے علاقے میں ان کی اپنی فصلیں تو محفوظ رہی ہیں لیکن ان کے بقول چھوٹے کاشت کاروں کوان بارشوں سے بہت نقصان پہنچا ہے اور بعض علاقوں میں تو جانوروں کے چارے کی فصل بھی بری طرح تباہ ہو گئی ہے: ’’جنوبی پنجاب میں غریب لوگ اپنے قرضے اتارنے، اپنی سال بھر کی غلے کی ضروریات پوری کرنے اور بچوں کی شادی بیاہ کے لیے گندم کی فصل سے ہونے والی آمدن کا انتظار کرتے ہیں، ان بارشوں نے تو ان کی اقتصادی مشکلات بہت بڑھا دی ہیں۔‘‘
لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن کے علاقے شاہ پور نشیب کے ایک کاشت کارسید تنصیر شاہ نے بتایا کہ حالیہ بارشوں سے فصلوں کو پہنچنے والا نقصان کئی جگہوں پر بہت زیادہ ہے اور خطرہ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں کاشت کاروں کو ان کی فصلوں پر آنے والی لاگت بھی موصول نہیں ہو سکے گی: ’’میں نے نیشنل بینک سے قرضہ لے کر فصل کاشت کی تھی لیکن مجھے ڈر ہے کہ انشورنس کمپنی حیلوں بہانوں سے اس نقصان کو پورا کرنے سے گریز کرے گی۔‘‘
پنجاب کے چیف میٹرالوجسٹ ڈاکٹر عظمت حیات نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں ایک نیا رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ اب بارشیں محدود علاقوں میں کافی زیادہ شدت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ان کے بقول یکم اپریل سے 17 اپریل تک بلوچستان میں معمول سے 330 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جبکہ پنجاب میں اس عرصے کے دوران معمول سے 175 فی صد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔
ڈاکٹرعظمت کے بقول اگلے چوبیس گھنٹوں میں بالائی پنجاب (راولپنڈی، لاہور، گوجرانوالہ، سرگودھا، فیصل آباد ڈویژن) بالائی خیبرپختونخوا (مالاکنڈ، ہزارہ، مردان، کوہاٹ، پشاور ڈویژن)، اسلام آباد، کشمیر اور گلگت بلتستان میں کہیں کہیں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ مزید بارش کا امکان تو ہے لیکن ان کے بقول تباہی کا باعث بننے والا غیر معمولی بارشی سلسلہ اب اختتام پذیر ہے اور اب بارشوں میں ویسی شدت نہیں ہوگی۔
شوکت علی چدھڑ کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر متاثرہ کسانوں کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کرے، اور کسانوں کو اگلی فصل کے لیے کھاد بیج اور زرعی ادویات فری یا سستے نرخوں پر دی جائیں۔ ایک سوال کے جواب میں پنجاب کے وزیر زراعت ملک نعمان کا کہنا تھا کہ نقصانات کے حوالے سے تفصیلی سروے مکمل ہونے کے بعد وزیر اعلٰی پنجاب امدادی پیکج کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔