مجھے اکثر یہ جملہ سننے کو ملا ہے کہ ہمارے ملک میں عورت کی زیادہ عزت ہے اور باہر کے ملکوں میں ایسا نہیں ہے۔ اس رائے کے دلائل میں سرفہرست یہ ہے کہ ہم خواتین کو قطار میں جگہ دیتے ہیں، بیٹھنے کی جگہ دیتے ہیں، دروازہ کھولتے ہیں وغيره۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ واقعی ایسا ہوتا ہے، کچھ ثقافتی پس منظر ہے اور کچھ دینی تعلیم بھی مگر اتنی عزت و احترام کے باوجود ہم جنڈر گیپ انڈکس میں اتنا نیچے کیوں ہیں؟ تعليم، صحت، پیشہ وارانہ مواقع کے اعتبار سے پاکستان کا 145\146 نمبر کیا یہ کوئی بین الاقوامی سازش ہے؟
عالمی اقتصادی فورم کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صنفی مساوات کے حوالے سے پائی جانے والی خلیج کے 2022ء کے عالمی انڈکس میں پاکستان اور افغانستان سب سے نیچے ہیں۔ خواتین کو دستیاب سماجی اور اقتصادی مواقع کی بنیاد پر باقی ممالک کے مقابلے میں ہمارا ملک اتنا پیچھے کیسے ہو سکتا ہے؟
اگر ہم سماجی طور پر عورت کی حیثیت پر بات کریں تو آج بھی بیٹی کی پیدائش پر مبارکباد سے زیاده ' کوئی بات نہیں‘ سنے کو ملتا ہے اور خاص طور پر ماں فوراً بیچاری بھی قرار دے دی جاتی ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ بات دلچسپ ہے یا قابل ماتم کہ پدرشاہی معاشرے کی اس فرسوده روایت کی علمبردار خواتین ہی ہیں، جو آج بھی بیٹا، پوتا، نواسا دیکھنے پر بضد نظر آتی ہیں۔ بہت افسوس ہوتا ہے جب آج کل کی پڑھی لکھی لڑکیاں بھی بیٹے کی ہی خواہشمند دکھائی دیتی ہیں۔ بہت سے فیس بک گروپ میں آپ کو حقوق نسواں پر بات کرنے کے بعد وہ یہ بھی کہیں گی کہ سب دعا کریں اللہ انہیں اولاد نرینہ سے نواز دے اور ان کی جگہ مضبوط ہو سکے۔ یہ کون سی تعظیم و تکریم ہے جو نومولود سے لے کر اس کی ماں تک کی عزت میں کمی اور حیثیت میں کمزوری پیدا کر رہی ہے؟ شکر ہے کہ اب یہ رواج کم ہوتا جا رہا ہے مگر اب بھی اکثریت ایسے ہی سوچتی ہے اور اس رحجان کی بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ اب بھی بہت سے گھرانوں میں بیٹا نہ ہونے پر طلاق یا دوسری شادی بہت حد تک قابل قبول ہے۔ خواتین کو خود اس فرسودہ روایت کو ختم کرنے میں پہل کرنی ہو گی۔ اگر ہم اپنی صنف کی حقیقی معنوں میں عزت چاہتی ہیں تو سب سے پہلے خود تو اس جنس کو عزت دینا اور اس پر فخر کرنا سیکھیں۔
مزاح سے سنجیدہ گفتگو تک خواتین کو نیچا دکھانا یا ان کے حقوق سے متعلق ہر تحریک کو طنز کا نشانہ بنانا بھی بہت حد تک قابل قبول عمل ہے۔ یہ جنسی تعصب اتنی گہرائی میں رچ بس چکا ہے کہ اس پر بات کرنا ہی اچنبے کی بات لگتی ہے۔ یہ تبدیلی ایک دن میں تو قطعاً نہیں آسکتی مگر ہر سطح پر اس کا ادراک ایک مثبت قدم ضرور ہو سکتا ہے۔ عزت واحترام ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مزاح کے نام پر مرد یا عورت کسی کو بھی بے عزت کرنا صرف اور صرف بد تہذیبی ہے۔ مثبت بہتری کے لیے سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ دفاتر میں باقاعدہ تربیت دینے کا رحجان زور پکڑ رہا ہے مگر انفرادی کاوش بھی اتنی ہی ضروری ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کی بات کریں تو یہ حقیقت ہے کہ واقعی ہی زیادہ تر باہر کے ممالک میں کوئی آپ کو صرف اس لیے اپنی نشست پیش نہیں کرتا کہ آپ خاتون ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کیونکہ میں جرمنی میں زیادہ تر ٹرام اور بس سے ہی سفر کرتی ہوں، مگر یہ عزت کا فقدان کبھی محسوس کیوں نہیں ہوا؟ شاید اس لیے کہ لوگوں کے درمیان کھڑی رہ کر بھی سفر کرنا پڑے تو سب اپنے کام سے کام رکھتے نظر آتے ہیں، نہ کوئی خواتین کو سر سے پاؤں تک گھورتا رہتا ہے نہ کوئی آوازیں کستا دکھائی دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اپنے ملک میں اس کے برعکس مناظر نظر آتے ہیں۔ اگر یہ جملہ پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن کا فوری ردعمل یہ ہے کہ 'اب ایسا بھی نہیں' تو يقيناً یا تو آپ کا تعلق اس طبقے سے ہے جو بس یا ویگن کا استعمال ہی نہیں کرتا يا اس صنف سے ہے، جس نے کبھی یہ مشکل دیکھی ہی نہیں۔ ہمارے ملک کی خواتین کی اکثریت کو کسی نہ کسی طرح سے ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی مقامات پر یہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ 100 فیصد مرد ایسا ہی کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے تقریباً 100 فیصد خواتین کو یہ جھیلنا ضرور پڑتا ہے اور اس کا تعلق نہ تو لباس سے ہے اور نہ عمر سے ہے، اس کا تعلق صرف مجرم کی ذہنیت سے ہے۔ اگر کوئی بھی مرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کے گھر کی خواتین کے ساتھ تو کبھی ایسا نہیں ہوا تو کافی امکان ہے کہ بس آپ کو بتایا نہیں گیا کیونکہ آپ کا ردعمل کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کو کسی بس میں سوار ہوتے ہی فکر لاحق نہیں ہوتی کہ آپ یہاں محفوظ ہیں یا نہیں، ارد گرد کی نظریں آپ کو پریشان نہیں کرتیں، آپ کو یہ فکر نہیں کہ آپ کے دائیں بائیں اور خاص کر پچھلی نشست پر کون بیٹھا ہے تو يقيناً آپ کسی خاتون کی پریشانی سے نابلد ہی رہیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ نیک دل مرد حضرات کسی بھی خاتون کو کھڑا دیکھیں تو اپنی نشست پیش کر دیتے ہیں جو واقعی ایک قابل ستائش امر ہے، اس پیش کش کا مقصد جہاں عزت دینا ہے وہیں یہ احساس بھی ہے کہ ارد گرد کی نظریں کتنا پریشان کر سکتی ہیں۔ اپنی نشست پیش کرنا ایک اچھا اور فوری حل تو ہے مگر اصل مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ اسی طرح بینک يا خریداری کی لمبی قطار میں خواتین کو آگے جانے دینا بھی شاید عزت دینا ہی ہے مگر اس سب سے زیادہ ضروری پورے ماحول کو محفوظ کرنا ہے۔ اس لیے آپ کو باہر کے ممالک میں عزت کی کمی محسوس نہیں ہوتی، جب کوئی ایسا خاص برتاؤ تو نہیں کرتا مگر غیر محفوظ اور ہراساں بھی محسوس نہیں کرواتا۔ یہاں مقصد انگریزوں کی تعریف کر کے اپنے لوگوں کو نیچا دکھانا ہرگز نہیں، مقصد اس حقیقت کا ادراک ہے کہ ہم عزت کے پیمانے کو صرف نشت چھوڑنے یا قطار میں آگے جگہ دینے تک محدود نہ کریں بلکہ رویوں میں تبدیلی ضروری ہے کیونکہ حقیقی عزت کے معیار اور بھی ہیں۔ یہ مثال ایسی ہی ہے کہ کسی محلے میں مسلسل چوریاں ہوتی ہوں اور سب لوگ قفل تبدیل کرتے رہیں اور چور کو پکڑنے کی کوشش ہی نہ کریں۔
یہ شعور تعلیم اور تربیت سے ہی آسکتا ہے اور یہ ایک لمبا سفر ہے، جو مثبت تبدیلی نظر آ رہی ہے وہ بھی کچھ طبقات تک محدود ہے۔ ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر نیک و شریف مرد حضرات خود کسی پریشانی کا باعث نہیں بنتے تو اپنے سامنے کسی اور کو ایسا کرنے کی اجازت بھی نہ دیں۔ پولیس اور دیگر ادارے فوری طور پر ہر شکایت پر ایکشن لیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے حادثات ہوتے تو ہیں مگر بہت کم اس لیے ہیں کہ سب کو معلوم ہے کہ شکایت ہونے پر کوئی چھوٹ نہیں ملے گی۔
یہ بیٹے جن کی پیدائش کو بہت سی مائیں اپنے لیے تمعنے سے کم نہیں سمجھتیں، خدارا ان کو سکھائیں کہ عزت ہر انسان کا حق ہے، صرف اپنی ماں یا بہن کا نہیں۔ بیٹوں کو جذبات کے اظہار کی اجازت دیں تاکہ وہ ایک عام اور مکمل انسان کی طرح دوسرے کی تکلیف اور پریشانی بھی سمجھ سکیں۔ مردانگی کی یہ خود ساختہ تعریف اگلی نسل تک منتقل نہ ہونے دیں۔ اپنی بیٹی کو بھی سکھائیں که اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا سیکھے۔ 'میں لیڈیز ہوں' کارڈ استعمال کرکے قطار پھلانگنے سے زیادہ ضروری ہے اپنی حق تلفی پر بہادری سے ڈٹنا۔ تربیت ماں اور باپ دونوں کا فرض تو ہے مگر بحثیت عورت ماں نے اگر خود ہراسگی کا سامنا کیا ہے تو یقینی بنائیں کہ کسی کی بھی اولاد ایسی اذیت کا باعث نہ بنے۔ آخر ہم کب تک ہر مسئلے کو سازش اور مغربی پروپیگنڈا کہہ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرتے رہیں گے؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔