خواتین کا عالمی دن: پاکستان میں صورتحال میں مزید بہتری ضروری
8 مارچ 2011دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح آج پاکستان میں بھی خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے کئی خصوصی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ ملک کے تمام صوبوں میں اس دن کے حوالے سے سیمینارز، واکس اور ریلیاں ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں بیشتر ماہرین کا ماننا ہے کہ پچھلے تریسٹھ سالوں میں خواتین کی بہتری کے لیے اتنے عملی اقدامات نہیں کیے گئے جتنے اس ضمن میں دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگرچہ پاکستان میں خواتین کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں تاہم اس کے باوجود ابھی اس سلسلے میں بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کی سینئر رہنما اور قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ترقی نسواں کی سابق سربراہ مہناز رفیع نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جب تک حکومت اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے ملک کی (اکیاون فی صد آبادی) خواتین کو فیصلہ سازی اور پالیسیاں بنانے کے عمل میں شریک نہیں کیا جاتا، تب تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ان کے مطابق پاکستان میں (خاص طور پر دیہات میں) خواتین کو صحت اور تعلیم کی مناسب سہولتیں میسر نہیں ہیں اور تعلیم پر خرچ کیے جانے والے فنڈز انتہائی کم ہیں۔
ان کے بقول پاکستان کے شہروں میں عورتوں کی شرح خواندگی قریباﹰ تئیس فیصد اور دیہاتوں میں پندرہ فیصد کے قریب بتائی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ہزاریہ ترقیاتی اہداف پاکستان میں پورے نہیں ہو سکے۔ ان کے مطابق آج بھی پاکستان میں سینکڑوں عورتیں زچگی کے دوران ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ مہناز رفیع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حوالے سے منظور کیے جانے والے عالمی کنونشنز پر عمل درآمد کی بھی ضرورت ہے۔
مہناز رفیع نے بتایا کہ پچھلے دور حکومت میں عورتوں کو سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ ضلعی حکومتوں میں بھرپور نمائندگی دی گئی تھی، لیکن یہ خواتین اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں سے عدم واقفیت اور مرد ارکان پارلیمنٹ کے عدم تعاون کی وجہ سے خواتین کے حقوق کے لیے کوئی مؤثرکردار ادا نہیں کر سکیں۔
مہناز رفیع کے مطابق یہ امر خوش آئند ہے کہ خواتین کو پارلیمنٹ میں بھرپور نمائندگی دی گئی ہے اور ان کے لیے سول سروسز میں بھی کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔
مہناز رفیع کہتی ہیں کہ مردوں کے غلبے والے معاشرے میں ایک عورت کو اسپیکر یا گورنر بنا کر بیرونی دنیا کو عورتوں کو بااختیار بنانے کا تاثر دینے جیسے کاسمیٹکس اقدامات کی بجائے جاگیردارانہ اور قبائلی ’مائنڈ سیٹ‘ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق یہ بات قابل افسوس ہے کہ آج بھی پاکستان میں ونی، کاروکاری اور غیرت کے نام پر عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف قومی اسمبلی میں منظور کیا جانے والا بل سینیٹ میں ایک مذہبی جماعت کے رکن اسمبلی اور اس کے مرد ساتھیوں کی وجہ سے منظور نہیں ہو سکا۔
گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہوم نیٹ پاکستان کی سربراہ ام لیلیٰ اظہر نے ڈوئچے ویلےکو بتایا کہ پاکستان میں خواتین کی صورتحال میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتری آ رہی ہے۔ ان کے بقول آج خواتین کے مسائل پر کھل کر بات ہوتی ہے۔ خواتین کے حوالے سے قانون سازی میں بہتری آ رہی ہے، اور ان کی ’اکنامک ایمپاورمنٹ‘ کی بات ہو رہی ہے۔ سیاسی عمل میں خواتین کی شرکت میں اضافہ ہوا ہے۔ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف سول سوسائٹی اور میڈیا کی طرف سے اچھے طرز عمل کا مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان کے مطابق خواتین پارلیمنٹیرینز کی تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ام لیلیٰ کے مطابق اس سب کے باوجود عورتوں کے خلاف معاشرے میں موجود متعصبانہ رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار سلمان عابد کہتے ہیں کہ خواتین کی بہتری کے لیے ایک دن منا کر بیٹھ جانا مناسب نہیں ہے۔ ان کے بقول سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں یہ بات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ عورتوں کے مسائل کو حل کر کے ہی ملک کو ترقی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عاطف بلوچ