باجوڑ دھماکہ خاتون بمبار نے ہی کیا، حکام
27 دسمبر 2010یہ حملہ ہفتے کو افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے علاقے باجوڑ میں ہوا۔ خودکش بمبار نے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت قائم فراہمی خوراک کے ایک مرکز کی طرف بڑھنے والے ہجوم کو نشانہ بنایا، جس میں مردوں، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
اعلیٰ حکومتی عہدے دار سہیل احمد کا کہنا ہے، ’ابتدا میں یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ حملہ آور مرد تھا یا خاتون، لیکن اب یہ بات یقینی ہو گئی ہے کہ خودکش بمبار ایک خاتون ہی تھی‘۔
باجوڑ میں حکام نے بتایا ہے کہ انہوں نے بمبار کا سر اور برقعہ برآمد کر لیا ہے۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 46 ہو چکی ہے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہیں۔
خبررساں ادارے روئٹرز نے تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان کے قدامت پسند قبائلی معاشرے میں برقعہ پوش خواتین کی تلاشی بہت مشکل ہے۔ یہ پہلو سکیورٹی فورسز کے لئے انتہاپسندوں کی جانب سے خودکش حملوں کو روکنا مزید مشکل بنا سکتا ہے۔ انتہاپسند اسلامی نظریات رکھنے والے یہ لوگ ان حملوں کے لئے خواتین کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔
قبائلی امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے، ’اگر انتہاپسند ایسے حملوں کے لئے خواتین کا زیادہ استعمال کرتے ہیں تو اس سے سکیورٹی فورسز کے لئے بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا، ’پولیس فورس میں خواتین اہلکاروں کی تعداد کافی نہیں، اور اگر ہو بھی تو قبائلی معاشرے میں بہت سے لوگ اپنی خواتین کی جامہ تلاشی پسند نہیں کرتے‘۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ قبل ازیں امریکی صدر باراک اوباما اور برطانوی حکومت نے بھی دہشت گردی کے اس واقعے پر گہرے دُکھ کا اظہار کیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق ایسے حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شدت پسند اپنے خلاف عسکری کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں کسی خاتون بمبار کی جانب سے یہ دوسرا خودکش حملہ تھا۔ پہلی مرتبہ ایک خاتون نے 2007ء میں پشاور میں ایک فوجی چیک پوسٹ کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔ تاہم اس حملے میں بمبار کے علاوہ کوئی فرد ہلاک نہیں ہوا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی