باراک اوباما خارجہ پالیسی کے حوالے سے پرعزم
7 جنوری 2011امریکہ کی اقتصادی صورتحال ابھی تک مستحکم نہیں ہوپائی ہے اورکہا جاتا ہےکہ یہ موجودہ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس کے ساتھ ہی 2012ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات، کانگریس میں ریپبلکنز کی اکثریت اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو بھی بڑے مسائل میں شمارکیا جاتا ہے۔ لیکن امریکی صدر اوباما کے اس سال کے ایجنڈے میں خارجہ سیاست سرفہرست ہے۔
اگرخارجہ پالیسی کی بات کی جائے، تو اوباما کے پاس ایسے مواقع بھی ہیں، جوانتخابات کے موقع پران کے حق میں جا سکتے ہیں۔ مثلا 2011ء کے اختتام تک عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلاء، جس کا وعدہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا تھا۔ روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا نازک معاملہ اور معاشی شعبے میں اپنے سب سے بڑے حریف چین کے صدر ہوجن تاؤ کا سرکاری دورے پر امریکہ آنا۔ اس دورے میں امید کی جا رہی ہے کہ صدر اوباما اپنے چینی ہم منصب پر کرنسی کی قدر میں اضافہ کرنے کے حوالے سے زور ڈالیں گے۔
امریکہ میں قومی سلامتی کے ادارے کے نائب سربراہ بین روڈس کا کہنا ہے خارجہ پالیسی اور اقتصادیات کا آپس میں بڑا گہرا ربط ہے۔ مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کا دوبارہ شروع ہونا اور بے نتیجہ رہنا۔ اس کے علاوہ افغان مشن کا شمار بھی صدرکی خارجہ پالیسی کے اہم ترین چیلنجز میں ہوتا ہے۔
اس حوالے سے سابق امریکی صدر جارج بش کے مشیر اسٹیفن ہارڈلی کہتے ہیں کہ داخلی سیاست میں اوباما کی کمزوری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ خارجہ سیاست میں کامیاب نہ ہو پائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی بات ہو یا افغانستان میں تعمیر نو کا معاملہ ہوتو، ریپبلکنز کی جانب سے اوباما انتظامیہ کا ساتھ دیا جائے گا۔
بین روڈس کے بقول شمالی کوریا بھی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور یہاں بھی پیش رفت کی امید ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے معاملات بھی صدر اوباما کے لئے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ روڈس کہتے ہیں کہ اوباما کی پوری کوشش ہو گی کہ اس سال افغانستان میں سلامتی کے حالات بہتر ہوں اور پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کوتباہ کیا جائے۔ بہرحال ان سب باتوں کے باوجود عراق سے امریکی فوجوں کا مکمل انخلاء اوباما کی خارجہ پالیسی کے ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : عاطف توقیر