بان کی مون کے خصوصی نمائندے طرابلس پہنچ گئے
3 ستمبر 2011اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون کے خصوصی نمائندے این مارٹن ہفتہ کے دن طرابلس پہنچ گئے ہیں۔ مارٹن وہاں باغیوں کی قومی عبوری کونسل کے رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقات میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اقوام متحدہ لیبیا میں بحالی اور تعمیر نو کے لیے کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔ طرابلس پہنچنے پر انہوں نے کہا کہ لیبیا کو دوبارہ ترقی کے راستے پر گامزن کرنا، قومی عبوری کونسل کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔
اس سے قبل ہفتے کے ہی دن آسٹریلوی دارالحکومت کینبرا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ عالمی ادارہ لیبیا میں خانہ جنگی کے بعد بحالی اور تعمیر نو کے لیے مختلف منصوبہ جات ترتیب دینے میں مصروف ہے،’ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ لیبیا کی نئی حکومت کی درخواستوں پر جلد ازجلد عمل کرنے کے قابل ہو جائے‘۔
پیرس میں لیبیا کے لیے منعقد کی گئی ایک خصوصی کانفرنس میں شرکت کے بعد بان کی مون آسٹریلیا کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے آسٹریلیا کی حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ لیبیا میں قیام امن اور وہاں امدادی منصوبوں کے لیے اپنا تعاون جاری رکھے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم جولیا گیلارڈ سے ملاقات میں بان کی مون نے کہا کہ لیبیا میں بحالی اور تعمیر نو کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے تاکہ عالمی برداری کی کوششیں رائیگاں نہ جائیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بان کی مون نے کہا،’ میں تمام عالمی طاقتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ لیبیا کے عوام کی امداد کے لیے مشترکہ طور پر حکمت عملی ترتیب دیں‘۔ تاہم انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ قذافی کے بعد لیبیا میں عوام کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔
دوسری طرف لیبیا کے باغیوں نے عہد کیا ہے کہ وہ قذافی کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد بیس ماہ کے دوران ہی پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کراتے ہوئے ملک میں ایک نئے جمہوری دور کا آغاز کر دیں گے۔
باغیوں کی قومی عبوری کونسل نے کہا ہے کہ وہ رواں ہفتے کے دوران ہی اپنی قیادت بن غازی سے طرابلس منتقل کر دیں گے۔ باغیوں کے رہنما مصفطیٰ عبدالجلیل نے طرابلس میں موجود قذافی مخالف مسلح افراد کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور شہر میں معمول کی زندگی شروع کرنے میں مدد کریں۔ طرابلس میں قذافی کی افواج کو شکست دینے کے لیے نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والی قبائلی جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچی تھی۔
دوسری طرف قذافی نے اپنے ایک عوامی پیغام میں خبردار کیا ہے کہ وہ اور ان کے حامی طویل گوریلا جنگ کے لیے تیار ہیں۔ باغی ابھی تک قذافی کے آبائی شہر سرت پر قبضہ نہیں کر سکے ہیں اور وہاں لڑائی جاری ہے۔ باغیوں نے کہا ہے کہ سرت میں قذافی کے حامی اگر دس ستمبر تک ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو انہیں عام معافی دے دی جائے گی ورنہ دوسری صورت میں ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین