بحرین میں عوامی احتجاج اور سفارتی دباؤ میں اضافہ
17 مارچ 2011شیعہ اپوزیشن الائنس سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان کے مطابق حکومت نے پانچ اہم شیعہ کارکنان کے علاوہ ایک سنی کارکن کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے Al-Wefaq اپوزیشن موومنٹ کے رہنما خلیل مرزوق نے بتایا کہ یہ تمام گرفتاریاں رات کے وقت عمل میں آئیں۔
اطلاعات کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں سخت گیر موقف رکھنے والی جماعت شعیہ حق گروپ کے رہنما حسن ماشائمہ بھی شامل ہیں۔ ان کی جماعت شیعہ اکثریت رکھنے والے ملک میں 230 برس سے بر سر اقتدار سنی اقتدار کے خاتمے کی متمنی ہے۔ انہیں اس سے قبل بھی دہشتگردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے ساتھ امن قائم کرنے کی غرض سے ان پر عائد تمام الزامات واپس لیتے ہوئے، انہیں 26 فروری کو رہا کر دیا گیا تھا۔
حکومت مخالف گروپ الوفاق کے مطابق انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اور حق گروپ کے سرگرم رکن عبدلجلیل بھی گزشتہ شب گرفتار کیے گئے ہیں۔ وہ گزشتہ ماہ ہی چھ ماہ کی سزا کاٹنے کے بعد رہا ہوئے تھے۔ ان گرفتاریوں کی ابھی تک بحرین حکومت کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
ادھر بحرین کے قریبی حلیف ملک امریکہ کے صدر باراک اوباما نے بحرین کے امیر حمد بن عیسیٰ الخلیفہ اور سعودی فرمانروا کو الگ الگ کئے گئے فون میں بحرین میں جاری فرقہ ورانہ ہنگاموں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مزاحمت کو روکنے کی زیادہ سے زیادہ کوششوں کےلئے سیاسی اور مذاکراتی عمل کی ضرورت پر زور دیا ۔اس کے علاوہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی بحرین حکومت پر زور دیا کہ وہ ان تحریکوں کو زبردستی کچلنے اور دبانے کے بجائے ملک میں اصلاحات نافذ کریں۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی قاہرہ میں ایک نیوز کانفرنس میں صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں بحرین میں متحدہ عرب امارت کی جانب سے افواج بھیجنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔ ایرانی صدر احمدی نژاد نے بھی متحدہ عرب امارت کی جانب سے بحرین میں فوج بھیجنے کی شدید مذمت کی ہے۔ ایران نے بحرین سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ادھر عراقی شیعوں کے روحانی رہنما آیت اللہ علی سیستانی نے بھی بحرین کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ نہتے عوام کے خلاف پُر تشدد کارروائیوں کو بند کرے۔
ادھر منگل کے روز امیر بحرین کی جانب سے ملک میں تین ماہ کے لیے ہنگامی حالات کا نفاذ کیا گیا تھا جس کے بعد سے دارالحکومت مناما کی وسط میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنان نے ملک کی سکیورٹی فورسز پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ہنگاموں میں زخمی ہونے والوں کو نہ صرف ہسپتال منتقلی سے روک رہی ہیں بلکہ طبی امداد فراہم کرنے والے عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
اس سے قبل پولیس کی جانب سے مناما کے ایک ہسپتال میں چھاپہ مارنے کے واقعے کے بعد بحرین کے شیعہ وزیر صحت Nizar Baharna نے اپنا استعفیٰ حکومت کو پیش کر دیا جبکہ حکومت مخالفین پرحد سے زیادہ طاقت کے استعمال کی بنا پر ملک کے 12 شیعہ ججوں نے بھی استعفیٰ سے دیا۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: عابد حسین