1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ ہمارا 'کوہ نور‘ ہیرا واپس کرے، بھارتی عوام

جاوید اختر، نئی دہلی
12 ستمبر 2022

برطانوی ملکہ کے تاج میں جڑا ہوا 105 قیراط کا یہ نادر ہیرا 1937ء میں اس وقت ہندوستان سے لے جایا گیا تھا جب یہ خطہ برطانوی کالونی کا حصہ تھا۔

https://p.dw.com/p/4GiZx
Großbritannien | Queen Elizabeth | Krone mit Koh-i-Noor
تصویر: Alastair Grant/AP Photo/picture alliance

برطانوی ملکہ الزبتھ ثانی کی وفات کے بعد کوہ نور ہیرا واپس لانے کا مطالبہ بھارت میں ایک بار پھر زور پکڑ گیا ہے۔

برطانیہ پر طویل ترین حکمرانی کرنے والی ملکہ الزبتھ ثانی کے آٹھ ستمبر کو انتقال کے فوراً بعد ہی بھارت میں سوشل میڈیا پر 'کوہ نور‘ ہیرا ملک واپس لانے کا مطالبہ ٹرینڈ کرنے لگا تھا، یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ صارفین کا خیال ہے کہ 'کوہ نور‘ ہیرا بھارت کو واپس مل جانا چاہیے۔

برطانوی ملکہ الزبتھ کی پراسرار جائیداد

دنیا کے سب سے بڑے ہیروں میں شمار ہونے والا 105.6 قیراط کا کوہ نور ہیرا 1937 ء میں اس وقت برطانیہ لے جایا گیا تھا جب بھارت پر برطانوی سامراج کی حکومت تھی۔ اسے ملکہ برطانیہ کے تاج میں دیگر تقریباً 2800 ہیروں اور قیمتی پتھروں کے ساتھ جڑا گیا تھا۔ یہ ملکہ الزبتھ ثانی کی موت تک ان کی ملکیت تھا اور فی الحال لندن ٹاور میں رکھا ہوا ہے۔ کہا جارہاہے کہ بادشاہ چارلس سوئم کی تاج پوشی کے موقع پر یہ تاریخی تاج ان کی اہلیہ ملکہ کامیلا کے سر پر رکھا جائے گا۔

ملکہ الزابیتھ ثانی نے 1953 میں تاج پوشی کے وقت کوہ نور جڑا ہوا تاج پہنا تھا
ملکہ الزابیتھ ثانی نے 1953 میں تاج پوشی کے وقت کوہ نور جڑا ہوا تاج پہنا تھاتصویر: Sport and General/empics/dpa/picture alliance

کوہ نور پر متعدد ملکوں کے دعوے

’کوہ نور‘ پر صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پاکستان، افغانستان اور ایران بھی اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملکہ برطانیہ کے اس تاج میں 170 قیراط کا جو سرخ ہیرا جڑا ہوا ہے۔ اسے دراصل سن 1371 میں سقوط غرناطہ کے وقت غرناطہ کے سلطان کی لاش سے پیڈرو نے چرا لیا تھا۔

بھارت  میں ماضی میں بھی مختلف مواقع پر 'کوہ نور‘ کی واپسی کے مطالبے ہوتے رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی کے پوتے سمیت بھارت کی کئی اہم شخصیات برطانیہ سے کئی بار یہ مطالبہ کرچکی ہیں کہ وہ کوہ نور ہیرا بھارت کو واپس کرے۔ سن 1947میں نئی دہلی نے سرکاری طور پر اس کا مطالبہ کیا تھا۔

سن 1997 میں جب ملکہ الزبتھ ثانی بھارت کے دورے پر آئی تھیں تو ان کے دورے کے دوران بھی کوہ نور واپس کرنے کا مطالبہ دہرایا گیا تھا۔

ملکہ الزابیتھ ثانی  1997 میں پاکستان کے دورے کے دوران بینظیر بھٹو سے محو گفتگو
ملکہ الزابیتھ ثانی 1997 میں پاکستان کے دورے کے دوران بینظیر بھٹو سے محو گفتگوتصویر: M. Khursheed/AP/picture alliance

کوہ نور واپس کرنے سے برطانیہ کا مسلسل انکار

برطانوی حکومت کوہ نور ہیرے کو واپس کرنے کے مطالبے کو مسلسل مسترد کرتی رہی ہے۔

برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون جب سن 2013 میں بھارت آئے تھے تو انہوں نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ برطانیہ لے جایا جانے والا کوہ نور ہیرا واپس نہیں کیا جائے گا۔

ڈیوڈ کیمرون نے کہا تھا،''مجھے نہیں لگتا کہ یہ صحیح طریقہ ہے۔ یونان کے الینگن سنگ مرمر کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مجھے چیزوں کو لوٹانے میں کوئی یقین نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ یہ کوئی عقل کی بات ہے۔‘‘

واضح رہے کہ یونان کے پتھروں سے بنی مورتیوں کو بھی برطانیہ لے جایا گیا تھا۔ 1925ء سے یونان اپنی اس انمول ملکیت کی برطانیہ سے واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن یہ سنگِ مرمر آج بھی برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔

 مودی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارت کو کوہ نور پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہیے
 مودی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارت کو کوہ نور پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہیےتصویر: Victoria Jones/PA Wire/empicspicture alliance

کوہ نور پر مودی حکومت کا موقف

کوہ نور ہیرے کی واپسی کے لیے بھارتی عدالتوں سے بھی رجوع کیا جاچکا ہے۔ ایسے ہی ایک کیس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے سن 2019 میں سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ کوہ نور ہیرا برطانیہ نے چوری نہیں کیا تھا بلکہ ہندوستان کی مرضی سے سابق نو آبادیاتی حکمرانوں کو دیا گیا تھا۔

 مودی حکومت نے بھارتی سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ بھارت کو کوہ نور پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہیے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ سن 1851 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہ ہیرا برطانوی حکمرانوں کو تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اس ہیرے کی واپسی کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست کے جواب میں حکومت کا کہنا تھا کہ ''اس ہیرے کو نہ تو چرایا گیا تھا اور نہ ہی زبردستی چھینا گیا تھا۔‘‘

بھارت:خاتون وکیل کا پرنس ہیری سے شادی کا خواب چکنا چور

سپریم کورٹ میں یہ درخواست ایک شہری نفیس احمد صدیقی نے دائر کی تھی، جس میں بہت سے دیگر بھارتی شہریوں کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کوہ نور ان بہت سے نوادرات میں سے ایک ہے، جو برطانوی حکمران اپنے نو آبادیاتی دور کے دوران یہاں سے اپنے ساتھ چرا کر لے گئے تھے۔

ملکہ الزبتھ کی زندگی کے پانچ اہم لمحات

کوہ نور ہیرے کی تاریخ

 کوہ نور ہیرا ہیروں کے لیے مشہور جنوبی بھارت کے گول کنڈا کان میں چودہویں صدی میں دریافت ہوا تھا۔ اس وقت وہاں کاکاتیا مملکت کی حکمرانی تھی۔

یہ ہیرا مختلف دور میں مختلف بادشاہوں کی ملکیت رہا۔ ابتدائی ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ سولہویں صدی میں یہ مغل بادشاہوں کے پاس تھا۔ اس کے بعد فارس کے حکمرانوں نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور پھر یہ افغانوں کے قبضے میں چلا گیا۔ سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ اسے افغان رہنما شاہ شجاع درانی سے چھین کر بھارت لے آئے۔ لیکن جب برطانیہ نے پنجاب کا انضمام کیا تو اس ہیرے کو بھی اپنی جائیداد میں شامل کرلیا۔

مہاراجہ دلیپ سنگھ نے جب انگریزوں کے سامنے خودسپردگی کی تو یہ ہیرا برطانوی قبضے میں چلا گیا اور1840 ء کی دہائی کے اواخر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس رہا۔ سن 1850میں بھارت کے اس وقت کے گورنر جنرل نے برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا کو کوہ نور ہیرا تحفے میں دیا تھا۔ جسے بعد میں ملکہ الزبتھ کے تاج میں سجا دیا گیا۔

برطانوی حکمران اپنے دور حکمرانی میں جو نادر اور قیمتی چیزیں بھارت سے لے گئے تھے ان میں ٹیپو سلطان کی انگوٹھی بھی شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ٹیپو سلطان کو انگریزوں سے شکست ہوگئی تو ان کی ایک قیمتی انگوٹھی مبینہ طورپر انگریزوں نے ان کی لاش سے چرالی تھی۔

ملکہ الزبتھ ثانی کی موت کے بعد اب بیشتر بھارتیوں کا کہنا ہے کہ کوہ نور ہیرے کے سلسلے میں ان کا صبر اب جواب دے رہا ہے۔ ٹوئٹر پر اب بھارتی صارفین مسلسل یہ مطالبہ کررہے ہیں،''کیا ہمیں ہمارا کوہ نور اب واپس مل جائے گا؟‘‘