دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف برلن میں بہت بڑا مظاہرہ
4 فروری 2024اس مظاہرے کے دوران شرکاء وفاقی جرمن پارلیمان کی رائش ٹاگ کہلانے والی تاریخی عمارت کے پاس ہی نہیں بلکہ اس کے ارد گرد بھی جمع تھے۔ ہفتہ تین فروری کو تقریباﹰ پورا دن جاری رہنے والے اس احتجاج کے موقع پر برلن میں اوائل فروری کے عمومی موسمی حالات کے مطابق کافی سردی تھی اور بارش بھی ہوتی رہی تھی۔
وفاقی پارلیمان کے ارد گرد زندہ 'فائر وال‘
جرمنی میں اسلام کی موجودگی اور مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی مخالفت کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) یا 'متبادل برائے جرمنی‘ اور اس طرح کی سوچ کے حامل دیگر چھوٹے بڑے گروپوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں پناہ کے لیے جرمنی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی مدد کرنے والی تنظیم 'پرو آزیول‘ کے ایک سرکردہ رکن طارق الاوس نے اس احتجاج کے دوران اپنے خطاب میں کہا، ''ہم نے اپنے مظاہرے کے دوران بنڈس ٹاگ کی عمارت کو چاروں طرف سے اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ ہم نے علامتی طور پر اس پارلیمان کے ارد گرد ایک زندہ (حفاظتی) فائر وال بنا دی ہے۔‘‘
’ناکارہ اور معیشت پر بوجھ افراد‘ کی جرمنی سے نقل مکانی کا منصوبہ
جرمنی میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف اس مظاہرے کا اہتمام بہت سی سیاسی، سماجی اور فلاحی تنظیموں کے اس اتحاد نے کیا تھا، جس کا نام ہے: ''ہاتھوں میں ہاتھ، یکجہتی کا مظاہرہ ابھی!‘‘
پرامن، قانون پسند اور جمہوریت دوست سماجی رویوں کے حامل مظاہرین کے اس احتجاج کے دوران وسطی برلن میں اس مظاہرے کے شرکاء ایک ایسی جگہ پر دور دور تک پھیلے ہوئے نظر آئے، جو وفاقی پارلیمانی عمارت کے سامنے تھی، لیکن وفاقی چانسلر کے دفتر، تاریخی برانڈن برگ گیٹ اور شہر کے مرکزی ریلوے اسٹیشن سے زیادہ دور بھی نہیں تھی۔
جرمنی: انتہائی دائیں بازوں کی جماعت اے ایف ڈی کی میئر کے انتخاب میں پہلی کامیابی
مسلسل کئی ہفتوں سے جاری عوامی احتجاج
منتظمین نے اس مظاہرے کے شرکاء کی تعداد تین لاکھ تک بتائی ہے، تاہم پولیس کے مطابق برلن میں اس احتجاج میں حصہ لینے والے شہریوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی۔ یہ احتجاج ملک میں ان عوامی مظاہروں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی تھا، جو گزشتہ چند ہفتوں سے جرمنی میں دائیں بازو کی انتہا پسندانہ سوچ کی مذمت میں مسلسل دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کا یوتھ ونگ زیر نگرانی
کل ہفتے کے روز ہی برلن کے علاوہ بھی جرمنی کے کئی دیگر بڑے شہروں میں بھی ایسے ہی عوامی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق اس احتجاج کے لیے فرائی برگ اور ڈریسڈن جیسے شہروں میں تقریباﹰ 30 ہزار شہری سڑکوں پر نکلے جب کہ نیورمبرگ اور آؤگس برگ جیسے شہروں میں سے ہر ایک میں ایسے مظاہرین کی تعداد تقریباﹰ 25 ہزار تک رہی۔ اس کے علاوہ کئی دیگر شہروں میں بھی ایسے ہی بہت سے مظاہرے کیے گئے، جن میں شامل شہریوں کی تعداد 25 ہزار سے کم تھی۔
م م / ع ت (ڈی پی اے، اے ایف پی)