برلن پارليمنٹ کے انتخابات ميں قذاقوں کی پارٹی کی کاميابی
19 ستمبر 2011قذاقوں کی پارٹی نا تجربہ کار ليکن تخليقی صلاحيتوں کی مالک سمجھی جاتی ہے۔ کل اتوار کو، برلن کی پارليمنٹ کے ليے ہونے والے انتخابات ميں اس پارٹی نے نو فيصد ووٹ حاصل کر کے سنسنی پيدا کر دی۔ پارٹی کے ايک چوٹی کے رکن آندرياس باؤم کی عمر 33 برس ہے۔ وہ صنعتی اليٹرانکس کے ڈپلوما يافتہ اور ايک اسمارٹ شخص ہيں۔ انہوں نے کہا کہ قذاقوں کی پارٹی کوئی واحد موضوع والی جماعت نہيں ہے، بلکہ اُس کا مقصد سياست کو ايک نئے انداز سے منظم کرنا ہے:
’’ہم يہ چاہتے ہيں کہ سياست وقت کے تقاضوں کا ساتھ دے اور جديد مواصلاتی طريقوں کے ذريعے نئے مواقع کو استعمال کرے۔‘‘
قذاقوں کی پارٹی کے ايک اور معروف رکن کرسٹوفر لاؤر ہيں، جوبرلن کی ٹيکنيکل يونيورسٹی ميں کلچر اور ٹيکنالوجی کی تعليم حاصل کر رہے ہيں۔ وہ پروڈکٹ مينيجر کی حيثيت سے جز وقتی ملازمت بھی کرتے ہيں:
’’ہم اس وقت يہ تجربہ کر رہے ہيں کہ انٹرنيٹ ملازمت، ملکيت اور علم کے سلسلے ميں بڑی بے دردی سے 19 ويں اور 20 ويں صدی کی مثالوں اور تصورات کو تتر بتر کر رہا ہے۔ اس کا کوئی نيا حل نہيں پيش کيا جا رہا ہے۔ بڑی سياسی جماعتيں جو کچھ پيش کر رہی ہيں وہ بھی 19 ويں اور 20 ويں صدی کے حل ہی ہيں۔‘‘
سياسی جماعتوں پر ريسرچ کرنے والے کارل رُوڈولف کورٹے نے کہا کہ اگر ايک پارٹی لمبے عرصے تک فعال رہنا اور کامياب ہونا چاہتی ہے تو اُسے ايک بنيادی معاشرتی تنازعے کو منتخب کرنا چاہيے۔ اگر قذاقوں کی پارٹی نے انٹرنيٹ پر آزادی اور تحفظ کو ايک بنيادی معاشرتی تنازعے کے طور پر پيش کيا ہے تو يہ واقعی ايک لمبے عرصے کا مسئلہ ہے۔
قذاقوں کی پارٹی يہ چاہتی ہے کہ سياست کو انٹرنيٹ کی مدد سے شفاف بنايا جائے۔ وہ ايک ايسی نئی نسل کی نمائندگی کرنا چاہتی ہے، جو انٹرنيٹ کے ساتھ جوان ہوئی ہے اور انٹرنيٹ کے بنيادی نظريے، يعنی معلومات کے آزادانہ تبادلے کی قائل ہے۔
ليکن يہ پارٹی انٹرنيٹ کے فوائد کے ساتھ اُس کے نقصانات کا شعور بھی رکھتی ہے۔
رپورٹ: کائی۔آليکزانڈرشولس / شہاب احمد صديقی
ادارت: عدنان اسحاق