’برین ڈرین‘ کوئی بڑا معاملہ نہیں، وزیر خزانہ کے پی کے
8 نومبر 2022خیبر پختونخوا میں بدامنی ، قدرتی آفات اور صنعتوں کی بندش کی وجہ سے بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مایوسی کے شکار کم پڑھے لکھے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بھی بیرون ملک جانے کے لیے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ بیرون ملک جانے کے خواہشمندوں میں انجینئرنگ، میڈیکل، آئی ٹی، بینکنگ، قانون، بزنس ایڈمنسٹریشن اور دیگر شعبوں سے وابستہ اعلی تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد شامل ہیں۔
جرمن ویزہ: طلبہ کو مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے، رپورٹ
اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سکالرشپ حاصل کرکے اعلی تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے کے لیے بھی کوشاں رہتی ہے، تاہم تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان میں سے زیادہ تر نوجوان واپس اپنے ملک آنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان تعلیم یافتہ نوجوانوں میں اکثریت یورپی ممالک، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ملکوں میں بسنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سعودی عرب جانے کے لیے پاکستانی ورکرز کا نیا ٹرانزٹ روٹ کابل
پشاور میں بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لیے گائیڈ لائن فراہم کرنے والے ایک نجی ادارے کے زیر اہتمام منعقدہ سیمنار میں یورپ اور امریکہ جانے کے خواہش مند سات سو سے زائد طلبا و طالبات نے رجسٹریشن کا عمل مکمل کر کے اس بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ہائیر ایجوکیشن سے منسلک اس ادارے کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر سید شجاعت علی شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا ادارہ ذہین طلبا و طالبات کو بیرون ملک اعلی تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے۔ ہماری انیس ممالک کی تین سو جامعات کے ساتھ پارٹنر شپ ہے، پاکستان میں ہمارے ادارے کی نو شاخیں ہیں جبکہ ملائیشیا، انگلینڈ اور یو اے ای میں بھی ہماری برانچز ہیں۔ ‘‘
صوبے میں بند کارخانے
خیبر پختونخوا میں تین سو سے زائد بڑے کارخانوں کی بندش کی وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے۔ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک سو ساٹھ کارخانے بحال کرائے۔ تاہم بدامنی کی وجہ سے زیادہ تر صنعتکاروں نے اپنا سرمایہ دیگر صوبوں میں منتقل کردیا ہے، جس کا خمیازہ مقامی لوگوں کو بے روزگاری کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان، ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ
سرکاری موقف
خیبر پختونخواہ میں مسلسل دوسری مرتبہ یعنی نو سال سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے۔ تحریک انصاف کو نوجوانوں کی جماعت بھی کہا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ نے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کی مہم کے دوران اقتدار میں آنے کے بعد ایک کروڑ نئی ملازمتیں مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جماعت حکومت میں آگئی تو لوگ بیرون ملک سے ملازمتیں لینے پاکستان آئیں گے۔ تاہم وفاق میں اس سال اپریل تک لگ بھگ چار سال حکومت میں رہنے کے باوجود بے روزگاری کی شرح میں کمی نہ ہو سکی۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا تھا، ''برین ڈرین کوئی بڑا ایشو نہیں ہے، جو لوگ باہر جاتے ہیں وہ ترقی یافتہ ممالک کا تجربہ لے کر آتے ہیں اور یہاں بہتر طریقے سے کام کو اگے بڑھاتے ہیں۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''صرف پروفیشنل ڈگری والے نہیں بلکہ ہم کم پڑھے لکھے لوگوں کو ہنر مند بناکر انہیں ملک اور قوم کی تعمیر وترقی میں کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔‘‘
امریکہ اور یورپی ممالک سے عدم واپسی
پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لیے جانے والے 132سکالرز میں سے 80 پاکستان واپس نہیں آئے جبکہ 52 فیل ہوکر واپس آئے ان سکالرز پر پاکستان کا 955 ملین روپے کا خرچہ آیا اسی سکالر شپ کے دوسرے مرحلے میں بیرون ملک جانے والے 68 سکالرز واپس نہیں آئے، یوں اس روش کے سدباب کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے سرکاری سکالر شپ پر تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے والے طلبا سے زمین یا گھر بطور ضمانت رکھوانے کا فیصلہ کیا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر برائے ہائیر ایجوکیشن کامران خان بنگش نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ''صوبائی حکومت کی واضح پالیسی ہے کہ جو بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے سرکاری خرچ پر جاتا ہے، انہیں ایک معاہدے پر دستخط کرنے پڑتے ہیں۔ اس معاہدے میں یہ ضمانت لی جاتی ہےکہ متعلقہ طالبعلم تعلیم مکمل کرنےکے بعد وطن واپس آئے گا، بصورت دیگر وہ اپنی تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات حکومت کو واپس کرنے کا پابند ہو گا۔‘‘
دوسری جانب بے روزگار یاکم آمدنی والے اورکم تعلیم یافتہ لیکن ہنر مند نوجوان مزدوری کے لیے خلیجی ممالک جانے کے لیے سفارتخانوں اور ٹریولنگ ایجنٹس کے دفاتر کے چکر کاٹتے دکھائی دیتے ہیں، یہاں تک کہ پشاور کے ایک حساس علاقے میں واقع افغان قونصل خانے میں بھی افغانستان جانے اور وہاں مزدوری کرنے کے خواہش مندوں کا رش لگا رہتا ہے۔