اب اگر یہ وباء چند سر پھرے لوگو ں تک محدود ہوتی تو اس کو نظرانداز کیا جا سکتا تھا مگر اس میں نریندر مودی حکومت خود پیش پیش ہے۔ آگرہ کے تاریخی شہر میں انجینئرنگ کالج کے طلبا پر تو غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں میڈیکل کالج کے طلبا پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کیس رجسٹر کیا گیا۔ یعنی بھارتی ٹیم کے علاوہ اگر کسی اور ٹیم کی کارکردگی کو آپ نے سراہا تو اس کی '’سزا عمر قید یا پھانسی‘‘ ہے؟
پاکستانی ٹیم کی بہتر کارکردگی کو سراہنا کتنا خطرنا ک ہو سکتا ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آگرہ کی بار ایسوسی ایشن نے ان طلبا کو قانونی نمائندگی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی ان کا کہنا ہے کہ طلبا کا ''جرم دہشت گردی‘‘ سے کم نہیں ہے۔
اُدھر بھارت کے جنوبی حصے کرناٹک میں کانگریس کی طلبا تنظیم نے کشمیری طلبا کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ اگرچہ کشمیر میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی حمایت کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کا سہارا لینا نئی بات ہے۔ بھارت کے بہت سارے شہروں میں کشمیریوں کو بس اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پر پاکستانی ٹیم کو مبارکباد دی تھی۔
کشمیری طلبا کے خلاف پولیس کی سنجیدہ کارروائی کا مطالبہ سوشل میڈیا صارفین نے کیا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی حمایت کرنا ''ملک دشمنی‘‘ ہے، پاکستانی ٹیم کی حمایت کرنے والے ''ملک دشمن‘‘ ہیں اور ایسے افراد کو سخت سے سخت سزا کے ذریعے سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔
پولیس اور انتظامیہ نے حیرت انگیز طور پر اس پر عمل کر کے سخت قوانین کے تحت کیس درج کیے۔ حالانکہ ابھی بھارت میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے، جو پاکستان کے حق میں حمایت یا جذبات کے اظہار پر پابندی عائد کرے۔ مگر کیا کیا جائے فی الحال دنیا کی سب سے ”بڑی سمجھی جانے والی جمہوریت"جنونی قوم پرستی کی زد میں ہے اور اس نے اب فلموں کے بعد کھیلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
جنونی قوم پرستی اور ہجومی ذہنیت نے منطق اور قانون کو اپنا غلام بنایا ہے۔ کشمیریوں کے خلاف نفرت اس قدر پیوست ہے کہ مختلف نقطہ نظر رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ کشمیریوں کی زندگی اور کیریئر کو برباد کر کے ہی ان کو سبق سکھایا جا سکتا ہے۔ یہ سلوک ان کے عدم تحفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں لوگوں کو اپنی سوچ دوسروں پر مسلط کرنا پڑ رہی ہے۔
بھارت میں مقیم کشمیریوں کے لیے انتقام اور مجرمانہ کارروائی کا خوف نیا نہیں ہے۔ آج کے وقت کی اکثریت اور قوم پرستی سے پہلے بھی بھارت اور پاکستان کے بیچ میچ کے وقت کشمیریوں کے اوپر تشدد کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
مارچ 2014ء میں ایشین کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنے پر اترپردیش کے ایک کالج سے 67 کشمیری طلبا کو نکال دیا گیا تھا۔ اس جنونی قوم پرستی کی لہر میں تشدد اور سنگین دفعات کے خوف سے آخر کس طرح آپ کسی کو بھی قوم پرستی اور خود ساختہ حب الوطنی کی طرف مائل کر سکتے ہیں؟
کرکٹ کی دنیا میں کشمیر میں 1983ء میں کھیلا گیا بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کرکٹ میچ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ سیاسی تاریخ کے حوالے سے اس سے بھارت کے سمجھدار لوگ ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں ۔ جب کشمیر میں ویسٹ انڈیز اور بھارت کے درمیان پہلی بار بین الاقوامی کرکٹ میچ کی میزبانی کی گئی تو وہاں تماشائیوں نے ویسٹ انڈیز کی پرزور حمایت کی۔ اس حد تک کہ کلائیولائیڈ اور دیگر کھلاڑیوں نے بعد میں بتایا کہ اس طرح کی حمایت ان کو اپنے ہوم گراؤنڈ پر بھی کبھی نہیں ملی۔
سوال یہ ہے کہ کیا قوم پرستی کا بت اتنا نازک ہے یا وہ اس قدر نازک شاخ پر کھڑا ہے کہ بس مخالف ٹیم کی حمایت کرنے اور بہتر کھیل پیش کرنے والے کو داد و تحسین دینے سے وہ پاش پاش ہو سکتا ہے؟ کیا قوم پرستی کو ڈر، دھونس، انسداد دہشت گردی اور غداری کے قوانین کے سہارے کھڑا کیا جا سکتا ہے؟