1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بغداد میں امریکی سفارت خانے پر راکٹوں سے حملے

21 دسمبر 2020

عراقی دارالحکومت بغداد میں انتہائی سکیورٹی والے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے پراتوار کے روز کم از کم تین راکٹ داغے گئے۔

https://p.dw.com/p/3mzJS
Irak Botschaft der USA in der Grünen Zone
تصویر: Reuters/Str

عراق کے دارالحکومت بغداد کے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے کو نشانہ بناتے ہوئے اتوار کے روز کم از کم تین راکٹ داغے گئے تاہم اس حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔

عراقی سکیورٹی اہلکاروں نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی سفارت خانے میں تعینات سی۔ ریم ڈیفنس سسٹم نے ان راکٹوں کو فضا میں ہی تباہ کردیا۔ تاہم اس کی وجہ سے ایک رہائشی کمپلکس اور وہاں کھڑی کاروں کو نقصان پہنچا ہے۔ کسی کے ہلاک ہونے کی اطلا ع نہیں ہے۔

امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے ”امریکی سفارت خانہ بین الاقوامی زون (گرین زون) میں راکٹوں کے حملے کی تصدیق کرتا ہے جس کی وجہ سے سفارت خانے کے میزائیل شکن دفاعی نظام کو سرگرم کرنا پڑا۔"  بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس حملے میں معمولی نقصان پہنچا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے ”ہم عراق کے تمام سیاسی اور حکومتی رہنماوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس طرح کے حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات کریں اور خطاکاروں کے خلاف کارروائی کریں۔"

بغداد کے مختلف حصوں میں دھماکے

دی نیشنل اخبار کے نامہ نگار جوائس کرم نے اپنے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کیا ہے جس میں راکٹوں کو فضا میں روکتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ سفارت خانے کو ”کاٹیوشا راکٹوں اور مورٹار سے نشانہ بنایا گیا۔"

بغداد شہر میں موجود خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگار نے بتایا کہ انہوں نے راکٹوں کی آوازوں کے بعد کم از کم پانچ دھماکوں کی آوازیں سنیں۔

ایک مقامی عراقی شخص، جس کے مکان کو اس حملے میں نقصان پہنچا ہے، نے اے ایف پی کو بتایا کہ ”ہر کوئی چیخ اور رو رہا تھا۔ ان خوفناک آوازوں کی وجہ سے میری بیوی بے ہوش ہوگئی۔"

جنرل سلیمانی کے قتل کا معاملہ

یہ حملے ایسے وقت ہوئے ہیں جب ایران کے چوٹی کے فوجی افسر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی پہلی برسی قریب آرہی ہے۔ انہیں امریکا کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔

امریکا نے کسی انتقامی حملے کے خدشے کی وجہ سے دسمبر کے اوائل میں بغداد میں اپنے سفارت خانے کے کچھ اسٹاف کو واپس بلا لیا تھا۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟

مغربی ممالک اور عراقی حکام کے سخت گیر اور ایران نواز گروپوں کے درمیان اکتوبر میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سے اتوار کے روز ہونے والا حملہ تیسرا حملہ ہے۔

فی الحال کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ امریکا ماضی میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاوں پر اس طرح کے راکٹ حملوں کی ذمہ داری عائد کرتا رہا ہے تاہم ایران نے امریکی الزامات کے جواب میں ابھی براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

دوسر ی طرف متعدد گروپوں نے غیر متوقع طورپر اس حملے کی مذمت کی ہے ان میں معروف مذہبی رہنما اور سابق جنگجو لیڈر مقتدی الصدر شامل ہیں۔ عراقی شیعہ نیم فوجی گروپ کتائب حزب اللہ، جس پر ماضی میں اس طرح کے حملوں کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں، نے بھی کہا کہ 'شیطان (امریکا) کے سفارت خانے پر اس وقت حملے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘

خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے عراق میں امریکی مفادات پر ہونے والے حالیہ حملوں کے لیے ایران کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور بغداد کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ ان حملوں پر قابو پانے میں نا کام رہا تو امریکا عراق میں اپنا سفارت خانہ بند کردے گا۔

 صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر میں کہا تھا کہ جنوری میں اپنے عہدے سے دست بردار ہونے سے قبل وہ عراق سے امریکی فوجوں کی تعداد میں تخفیف کردیں گے۔

ج ا/  ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں