بلوچستان، زامران میں مارخوروں کی پُراسرار ہلاکت
26 دسمبر 2020بلوچستان میں کوہِ سلیمان کے اطراف میں پائے جانے والے مارخوروں کو سلیمانی مارخور کہا جاتا ہے، جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ایک خاص شہرت رکھتے ہیں۔ مارخور جنگلی بکرے کی ایک قسم ہے، جو بلوچستان میں کوہِ سلیمان اور چلتن نیشنل پارک کے علاوہ گلگت بلتستان، چترال، وادیِ کیلاش اور شمالی علاقہ جات میں بھی پائے جاتے ہیں۔
نوے کی دہائی میں ملک کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان میں بھی مارخور کی نسل معدومیت کا شکار تھی، جس کے بعد سردار نصیر ترین نے بلوچستان میں ان کے تحفظ کے لیے باقاعدہ مہم کا آغاز کیا۔ اُن کی اَن تھک کوششوں سے " تورغر کنزرویشن پروجیکٹ " کے تحت مارخور کی نسل کو تحفظ حاصل ہوا اور 2011ء تک کوہ سلیمان اور اطراف کے علاقوں میں مارخوروں کی تعداد 3500 تک پہنچ چکی تھی، جس میں ٹرافی ہنٹنگ کی تکنیک نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
زامران میں مارخوروں کے ساتھ کیا ہوا؟
گزشتہ چند ماہ سے ایران کی سرحد سے ملحقہ زامران کی پہاڑیوں میں درجنوں مارخور مردہ حالت میں ملے، جن کی ہلاکت کی وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکیں۔ اس علاقے کے رہائشیوں کی میڈیا تک رسائی نہیں ہے لہذاٰ اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے یہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے ''وائس آف بلیدہ‘‘ کے نام سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنا رکھا ہے۔ اسی اکاؤنٹ کو چلانے والے افراد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گزشتہ چند ماہ میں انہیں درجنوں مارخور مردہ حالت میں ملے ہیں۔
گلگت میں ایک اور امریکی کی ہاتھوں مارخور کا شکار
کچھ مقامی افراد کا خیال ہےکہ کسی نے پانی کے تالابوں میں زہر ملایا ہے، جس کو پینے کے باعث مارخور ہلاک ہو رہے ہیں جبکہ علاقے کے چند افراد کا یہ کہنا ہے کہ موسم گرما میں ایران کے ملحقہ علاقوں میں ٹڈی دَل کو مارنے کے لیے بڑے پیمانے پر زہریلہ سپرے کیا گیا تھا، جس سے بلوچستان کے علاقے بھی متاثر ہوئے اور پانی و آب و ہوا زہریلی ہونے کے باعث وہاں نا صرف مارخور بلکہ دیگر نایاب نسل کے جانوروں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں اور مستقبل میں ان علاقوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خدشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بائیو ڈائیورسٹی ڈائیریکٹوریٹ کے ڈائیریکٹر نعیم اشرف راجہ کے مطابق حکومتِ پاکستان نے 1997ء میں مارخوروں کے تحفظ کے لیے ''مارخور ٹرافی ہنٹنگ‘‘ پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ یہ طریقہ دنیا بھر میں معدوم ہوتی انواع کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس میں مقامی افراد از خود جانوروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں جس کے بدلے میں انہیں مناسب رقم دی جاتی ہے، جو محدود پیمانے پر بوڑھے مار خوروں کے شکار کے پرمٹ جاری کر کے حاصل کی جاتی ہے۔
اس رقم کا 20 فیصد جنگلی حیات کے تحفظ اور 80 فیصد حصہ مقامی افراد کو دیا جاتا ہے۔ اپنا فائدہ دیکھ کر لوگ جی جان سے ان جانوروں کی حفاظت کرتے ہیں اور ان علاقوں میں کسی کی مجال نہیں کہ کوئی پرمٹ کے بغیر شکار کر سکے۔
فوری اقدامت کی ضرورت ہے
وائلڈ لائف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں بوڑھے مارخوروں کے شکار کے 12 پرمٹ جاری کیے گئے، جس سے تقریبا ایک لاکھ 10 ہزار ڈالر کی خطیر رقم حاصل ہوئی۔ اس کا 80 فیصد حصہ مقامی کمیونٹی کو دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی افراد نے اطراف کی پہاڑیوں سے مردہ حالت میں مارخور ملنے کے بعد اس سنجیدہ مسئلے کو سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے لانے کے ساتھ فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن ابھی تک وائلڈ لائف پاکستان، آئی یو سی این یا کسی اور ادارے کی جانب سے ان واقعات کے حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ڈی ڈ بلیو اردو کے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ کوئٹہ میں آئی یو سی این اپنا دفتر بند کر چکی ہے اور عملہ کراچی سے ہی فنکشنل ہے۔ ڈی ڈبلیو نے مار خور کے تحفظ پر کام کرنی والی معروف این جی او " زون سفاری" کے ایم ڈی علی شاہ صاحب سے بھی اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش بھی ناکام ہی رہی۔
مقامی افراد کا مطالبہ ہے کہ اس سنجیدہ مسئلے کے حل کے لیے فوری نوٹس لیتے ہوئے علاقے میں پانی کے ذخائر کے لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہے۔ فی الحال کسی کو بھی یہ نہیں معلوم کہ یہ مار خور کیسے اور کیوں مر رہے ہیں۔ تب تک کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا، جب تک اس حوالے سے باقاعدہ کوئی ادارہ اپنی تحقیق یا رپورٹ جاری نہیں کرتا۔