بلوچستان میں کان کنوں پر حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک
11 اکتوبر 2024پاکستان کے جنوب مغرب میں شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں یہ تازہ ترین حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب چند دنوں بعد ہی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک بڑی سکیورٹی سمٹ منعقد ہونے والی ہے۔
بلوچستان پولیس کے مطابق ضلع ہرنائی کی تحصیل دُکی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 20 افراد کو قتل کر دیا جبکہ سات زخمی ہیں۔ جان سے جانے والے کان کنوں میں پاکستانی شہریوں کے علاوہ افغان بھی شامل ہیں۔
کراچی ایئرپورٹ کے قریب دھماکہ، دو چینی شہری ہلاک
بلوچستان: علیحدگی پسندوں نے سات مزدوروں کو ہلاک کر دیا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دکی تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ہمایوں خان نے بتایا کہ مسلح افراد کے ایک گروپ نے رات گئے دکی کے علاقے میں کان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ زیادہ تر مردوں کا تعلق بلوچستان کے پشتون بولنے والے علاقوں سے تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں سے تین اور زخمیوں میں سے چار افغان تھے۔
دکی کے ایک ڈاکٹر جوہر خان شادیزئی نے بتایا کہ اب تک ضلعی ہسپتال میں 20 لاشیں اور 6 زخمی افراد کو منتقل کیا گیا ہے۔
بعض رپورٹوں کے مطابق حملہ آوروں نے راکٹ فائر کیے اور دستی بم بھی پھینکے۔
پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
حملے کی فوری طور پر کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی پر شبہ ظاہر کیا جارہا ہے، جو اکثر عام شہریوں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہے۔
اس گروپ نے اگست میں متعدد حملے کیے جن میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جب کہ حکام نے جوابی کارروائی میں 21 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا۔
حملے کی مذمت
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے دکی میں مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے شدید اظہار برہمی کیا ہے۔ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف فوری و مؤثر کارروائی کا حکم دیا ہے۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا ''دہشت گردوں نے ایک بار پھر غریب مزدوروں کو نشانہ بنا کر ظلم کی انتہا کردی۔ دہشت گردوں کا ایجنڈا پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے، عام غریب مزدوروں کو سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے، دہشت گرد بزدل ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا ''دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، ایک ایک بے گناہ کے قتل کا حساب لیں گے، بے گناہوں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا۔‘‘
پہلے بھی حملے ہوتے رہے ہیں
بلوچستان کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر اس سے قبل بھی حملوں کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
جنوری 2021 میں بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں 10 افراد کو اس وقت اغوا کرلیا گیا تھا، جب وہ سو رہے تھے، بعد ازاں ان کی شناخت کے بعد انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی اور جان سے جانے والوں کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔
یہ صوبہ متعدد علیحدگی پسند گروپوں کی آماجگاہ ہے جو آزادی چاہتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ اسلام آباد کی وفاقی حکومت تیل اور معدنیات سے مالا مال بلوچستان کا بے دریغ استحصال کررہی ہے جبکہ مقامی لوگوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔
پیر کے روز بلوچ لبریشن آرمی نامی ایک گروپ نے کہا کہ اس نے ملک کے سب سے بڑے ہوائی اڈے کے باہر چینی شہریوں پر حملہ کیا تھا۔ پاکستان میں ہزاروں چینی بیجنگ کے اربوں ڈالر کے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔
پاکستانی افواج کی صلاحیت پر سوالات
بی ایل اے کے حملے کے بعد ملک میں ہائی پروفائل ایونٹس یا غیر ملکیوں کی حفاظت کے حوالے سے پاکستانی افواج کی صلاحیت پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
اسلام آباد اگلے ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ حکام نے دارالحکومت میں سکیورٹی بڑھا دی ہے اور دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کو روکنے کے لیے فوج تعینات کردی گئی ہے۔
وزارت داخلہ نے اس ہفتے ملک کے چاروں صوبوں کو سکیورٹی کے اضافی اقدامات کے سلسلے میں الرٹ کر دیا تھا۔ کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ علیحدگی پسند گروپ اور پاکستانی طالبان عوامی مقامات اور سرکاری تنصیبات پرحملے کر سکتے ہیں۔
ج ا ص ز ( اے پی، روئٹرز)