بنگلہ دیش میں اسلام پسند ٹائیکون کے لیے سزائے موت کا فیصلہ
2 نومبر 2014یہ فیصلہ جماعت اسلامی کے سربراہ کے لیے ایسے ہی الزامات پر سزائے موت کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔ جنگی جرائم کی ایک عدالت نے تاجر میر قاسم علی کے خلاف یہ فیصلہ اتوار کو سنایا جو جماعت اسلامی کے ایک عہدے دار ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان پر پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی 1971ء کی جنگِ آزادی کے دوران قتل اور اغوا سمیت دس الزامات ثابت ہوئے ہیں۔
جج نے فیصلہ سنایا تو تریسٹھ سالہ علی نے زور سے چلاتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ حکومت کے احکامات پر سنایا گیا ہے۔
وکیل استغاثہ زید المعلوم نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’اس ملک اور متاثرہ شہریوں کو بلآخر انصاف مل گیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ قاسم علی کو آزادی کے ایک جواں سال فائٹر کے قتل پر سزائے موت ہوئی ہے۔ تاہم علی کے وکیل کے مطابق عدالت میں ثابت کیا گیا ہے کہ جنگ کے دوران وہ موقع واردات پر موجود نہیں تھے لیکن اس کے باوجود انہیں انصاف نہیں ملا ہے۔
علی ایک ٹیلی وژن چینل اور ایک اخبار کے مالک ہے۔ ان کے یہ دونوں میڈیا یونٹ جماعتِ اسلامی کے حامی ہیں۔ وہ شِپنگ اور جائیداد کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ان پر تشدد کی کارروائیوں میں ملوث ایک ملیشیا یونٹ چلانے کا الزام بھی ثابت ہوا ہے۔
بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے رواں ہفتے بدھ کو جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمٰن نظامی کو جنگی جرائم پر ہی موت کی سزا سنا دی تھی ہے۔ اس پر ان کے حامیوں کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ان کی جماعت نے اس فیصلے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا اعلان بھی کیا تھا۔
اس احتجاج کے اثرات آج اتوار تک بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ متعدد علاقوں میں ٹریفک کم ہے جبکہ بہت سے اسکول اور کاروباری مراکز بند پڑے ہیں۔جماعت اسلامی نے قاسم علی کے خلاف سزائے موت کے فیصلے پر بھی آئندہ جمعرات کو ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جماعت اسلامی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف بھی گزشتہ برس ایسے ہی فیصلے سامنے آ چکے ہیں۔ اس باعث اس پارٹی کے حامیوں کی جانب سے شروع ہونے والے مظاہروں نے ملک کو بدتر بحران میں دھکیل دیا تھا۔ مظاہروں کے دوران اس کے ہزاروں کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جن کے نتیجے میں مجموعی طور پر تقریباﹰ پانچ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تازہ عدالتی فیصلے کے بعد جنگی جرائم کی متنازعہ عدالت کی جانب سے سزائے موت کے فیصلے کا سامنا کرنے والے اسلام پسندوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔