1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں ’اسلام پسندوں‘ کے نئے حملے، مزید دو افراد قتل

مقبول ملک5 جون 2016

بنگلہ دیش میں مسلم عسکریت پسندوں کے مذہبی اقلیتوں اور سیکولر کارکنوں پر خونریز حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات میں ایک مسیحی شہری سمیت مزید دو افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔ مقتولین میں ایک اعلیٰ پولیس افسر کی بیوی بھی شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/1J0mV
Bangladesch - Polizisten vor dem Dhaka Gefängnis
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Abdullah

بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق مسیحی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شہری کے قتل کا واقعہ آج اتوار پانچ جون کے روز ملک کے شمال مغرب میں نتور ضلع کے گاؤں بون پارا میں پیش آیا، جس دوران اس پرچون فروش دکاندار کو چھریوں کے وار کر کے اس کی دکان پر ہی قتل کر دیا گیا۔

نتور میں ضلعی پولیس کے نائب سربراہ شفیق اسلام نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اس حملے میں نامعلوم حملہ آوروں نے اتوار کے روز سنیل گومیز نامی مسیحی شہری کو حملہ کر کے اس وقت قتل کر دیا، جب وہ اپنی دکان پر موجود تھا۔ یہ دکان اس گاؤں میں مقامی چرچ سے دور نہیں ہے۔‘‘

مقامی پولیس کے انسپکٹر عبدالرزاق نے اے ایف پی کو بتایا کہ مقتول سنیل گومیز کی عمر 65 برس تھی اور ابھی تک اس قتل کے محرکات واضح نہیں ہیں۔ تاہم یہ خونریز حملہ اور اس کے حالات ان حملوں سے عین مشابہہ ہیں، جن میں حالیہ مہینوں کے دوران مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں مشتبہ اسلام پسند متعدد ہندوؤں، بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے باشندوں کے علاوہ متعدد سیکولر سماجی کارکنوں اور بلاگرز کو بھی قتل کر چکے ہیں۔

Bangladesch Protest gegen Ermordung von US-Blogger (Bildergalerie)
بنگلہ دیش میں اب تک متعدد سیکولر بلاگرز کو قتل کیا جا چکا ہےتصویر: DW

اعلیٰ پولیس اہلکار کی بیوی کا قتل

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ضلع نتور میں مسیحی شہری کے قتل کا واقعہ ایک دوسرے خونریز واقعے کے محض چند گھنٹے بعد پیش آیا، جس میں جنوب مشرقی شہر چٹاگانگ میں انسداد دہشت گردی کے لیے سرگرم ایک اعلیٰ پولیس اہلکار کی بیوی کو قتل کر دیا گیا۔

اس واقعے میں حملہ آوروں نے پہلے تو ایک پولیس سپرنٹنڈنٹ کی اہلیہ پر چھریوں سے حملہ کیا اور پھر اس کے سر میں گولیاں مار کر اسے ہلاک کر دیا۔ پولیس کے مطابق چٹاگانگ میں قتل کا یہ واقعہ بھی آج اتوار ہی کے روز پیش آیا۔ اس واقعے میں مشتبہ مسلم عسکریت پسندوں نے بندرگاہی شہر چٹاگانگ کے ایک سپرنٹنڈنٹ آف پولیس باب الاختر کی 33 سالہ اہلیہ کو قتل کر دیا۔ مقتولہ محمودہ اختر اپنے بیٹے کو اسکول کی بس میں بٹھا کر واپس اپنے گھر جا رہی تھی۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد تین تھی، جو ایک موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ چٹاگانگ کے ایڈیشنل ڈپٹی پولیس کمشنر ہمایوں کبیر نے اس قتل کے بعد روئٹرز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ مشتبہ عسکریت پسندوں نے محمودہ اختر پر چھریوں سے وار کرنے کے بعد اس کے سر میں تین گولیاں ماریں۔

Bangladesch Festnahme der Mitglieder der ABT Terrorgruppe
بنگلہ دیشی پولیس اب تک متعدد مقامی مسلح اسلام پسند گروپوں کے ارکان کو گرفتار کر چکی ہےتصویر: Getty Images/AFP

ہمایوں کبیر نے کہا کہ اس قتل کا تعلق مقتولہ کے شوہر باب الاختر کے پیشہ ورانہ فرائض سے ہو سکتا ہے۔ باب الاختر چٹاگانگ پولیس کے ایک سپرنٹنڈنٹ ہیں، اور وہ اس شہر میں مشتبہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کا قلع قمع کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

بنگلہ دیشی پولیس کے مطابق گزشتہ تین سال کے دوران مقامی مسلم عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اقلیتی باشندوں اور سیکولر شہریوں کی تعداد اب تک 40 کے قریب ہو چکی ہے اور ایسے حملوں میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کافی تیزی آ چکی ہے۔

ایسے حملوں کی ذمے داری عام طور پر القاعدہ اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ جیسے بین الاقوامی عسکریت پسند اور دہشت گرد گروپوں کی مقامی شاخوں کی طرف سے قبول کر لی جاتی ہے لیکن ڈھاکا میں ملکی حکومت کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایسی جہادی تنظیموں کا کوئی وجود نہیں اور یہ خونریز حملے مقامی اسلام پسند گروہوں کے مسلح ارکان کی طرف سے کیے جا رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں