بنگلہ دیش میں جاری احتجاجی مظاہرے اور نئی ابھرتی قیادت
1 اگست 2024سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش میں جاری پر تشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 150 سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاہم بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق کم از کم 210 افراد، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں۔
کوٹہ سسٹم کے حوالے سے عدالتی فیصلے اور احتجاجی مظاہرے ختم ہونے کے بعد کچھ پابندیوں میں اب نرمی کر دی گئی ہے لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور تعلیمی ادارے تاحال بند ہیں۔
حکومت پر عدم اعتماد میں اضافہ
ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے رہنما بیرسٹر راہول قدوس کازل کا کہنا ہے کہ مظاہروں نے ملک میں 16 سال سے بر سر اقتدار جماعت کے خلاف عوام میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو ہوا دی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کازل کا کہنا تھا کہ اب حکومت کو اس خیال کو ترک کرنا ہوگا کہ ان کے پاس اگلے پانچ سالوں کے لیے اپنی من مانی کرنے کا لائسنس موجود ہے۔
بنگلہ دیش: حالات پرسکون لیکن کشیدہ، اب تک بارہ سو گرفتاریاں
تحریک کے حوالے سے عوامی لیگ کا نقطہ نظر
مظاہرین کے خلاف ریاستی رد عمل سخت رہا۔ صرف دارالحکومت ڈھاکہ میں 200000 سے زائد افراد کو احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی اور تشدد کے الزام میں کم از کم 200 مقدمات میں نامزد کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 12 دنوں کے دوران ہزاروں افراد گرفتار کیے گئے، جن میں کم از کم 253 طلباء بھی شامل ہیں۔
بنگلہ دیش میں حکومت مخالف مظاہرے، اپوزیشن لیڈر گرفتار
عوامی لیگ کے جوائنٹ جنرل سیکرٹری اے ایف ایم بہاؤالدین نسیم نے حکومت کی جانب سے معاملات میں خرابی کا اعتراف کرتے ہوئے قیادت میں خلا کو تسلیم کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مستقبل کی کسی بھی پالیسی کا تعین حکمران جماعت میں بات چیت سے کیا جائے گا۔
'نام نہاد جمہوریت قابل قبول نہیں‘
تاہم ابھی حالات کا معمول پر آنا شاید آسان نہ ہو۔ بنگلہ دیشی ماہر اور امریکہ کی الینوائے یونیورسٹی کے پروفیسر علی ریاض کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت پر مظاہروں کے اثرات پہلے ہی واضح ہوچکے ہیں۔
کیا شیخ حسینہ جمہوریت کی مخالفت پر اُتر آئی ہیں؟
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’'حکومت نے کچھ حد تک مشکوک انتخابات کے ذریعے جمہوریت کا ایک جعلی تاثر بنانے کی کوشش کی لیکن وہ دور اب ختم ہوگیا ہے۔ یہ حکومت، جو پہلے ہی کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتی تھی، اس کے پاس اقتدار بچانے کے لیے اب سوائے طاقت کے استعمال کے دوسرا کوئی چارہ نہیں بچا۔‘'
نئی سیاسی قیادت کا ظہور
ماہر سیاسیات تسنیم صدیقی کے مطابق اس تحریک نے کسی مرکزی قیادت کے بغیر لوگوں کو مؤثر طریقے سے متحرک کرنے کی بے مثال صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک ہی جماعت کے مسلسل 16 سال سے اقتدار میں رہنے کی وجہ سے ملک کا نظام ایک شخصی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں ہر مسئلے کے حل کے لیے وزیر اعظم سے ہی رجوع کیا جاتا ہے۔
صدیقی کے مطابق تحریک اس موجودہ سیاسی کلچر کو چیلنج کر رہی ہی۔ مزید برآں، عوامی لیگ اور بی این پی کی سیاسی رقابت نے نہ ہی نوجوان نسل کو کوئی فائدہ پہنچایا اور نہ ہی سیاسی منظر نامے کو بہتر بنایا۔
گرفتاریاں اور ہلاکتیں لیکن بنگلہ دیشی اسٹوڈنٹس جیت گئے!
وہ کہتی ہیں، ''ملک کے نوجوان اس قسم کی سیاست کو پسند نہیں کرتے۔ اگر یہ دونوں جماعتیں اس بات کو نہیں سمجھیں گی، تو وہ حکمرانی نہیں کرسکیں گی۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں کوئی تیسری بڑی جماعت ابھر کر آسکتی ہے۔
بنگلہ دیش: سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم بحالی کا عدالتی حکم مسترد کر دیا
علی ریاض کہتے ہیں کہ حکومت نے جبر کی سیاست کے ذریعے تمام حدیں پار کردی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طاقت کے ذریعے اس تحریک کو دبانے میں کچھ حد تک کامیابی کے باوجود یہ تحریک ختم نہیں ہوگی۔
انوپم دیب کنونجنا (ح ف/ ر ب)