بنگلہ دیش میں صورت حال کشیدہ، کم از کم 50 افراد ہلاک
4 اگست 2024چند روز حالات معمول پر رہنے کے بعد بنگلہ دیش میں دوبارہ پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پولیس کے مطابق بروز اتوار ہزاروں مظاہرین لاٹھیاں اٹھائے ڈھاکہ کے مرکزی شاہ باغ چوک پر جمع ہوئے۔ کئی مقامات کے ساتھ دیگر اہم شہروں کی سڑکوں پر بھی پرتشدد جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔
پولیس انسپکٹر الحلال نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''طلبہ اور حکمران جماعت کے حامیوں کے مابین جھڑپیں ہوئیں جبکہ ڈھاکہ کے منشی گنج علاقے میں دو نوجوان مارے گئے۔‘‘
ایک دوسرے پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’پورا شہر میدان جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کئی ہزار مظاہرین کے ہجوم نے ایک ہسپتال کے باہر کاروں اور موٹر سائیکلوں کو نذر آتش کر دیا ہے۔ پولیس اور ڈاکٹروں نے پبنا اور رنگ پور اور ماگورا میں مزید 50 اموات کی اطلاع دی ہے جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
بنگلہ دیش کی حکومت نے مختلف شہروں میں غیرمعینہ مدت تک کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
دریں اثنا وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ جو لوگ ’’تخریب کاری اور مظاہروں کے نام پر تباہی پھیلا رہے ہیں وہ اب طالب علم نہیں ہیں بلکہ مجرم ہیں۔‘‘ انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ’’وہ ایسے مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں۔‘‘
آصف محمود ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے والے اہم احتجاجی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنے حامیوں کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ چند ہفتے قبل ہونے والے ایسے مظاہروں کو سکیورٹی فورسز نے کچل دیا تھا۔
آصف محمود نے اتوار کو فیس بک پر لکھا، ''بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے بانس کی لاٹھیاں تیار کرو۔‘‘
بنگلہ دیش کی فوج کس کے ساتھ کھڑی ہے؟
چند ہفتے پہلے فوج نے کچھ مظاہروں کے بعد امن بحال کرنے میں مدد فراہم کی تھی لیکن اس کے بعد سے کچھ سابق فوجی افسران طلبہ تحریک میں شامل ہو چکے ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل اقبال کریم نے طلبہ کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی فیس بک پروفائل کی تصویر کو سرخ کر دیا ہے۔
موجودہ آرمی چیف وقار الزماں نے ہفتے کے روز ڈھاکہ میں فوجی ہیڈکوارٹرز میں افسران سے بات کرتے ہوئے انہیں بتایا، ''بنگلہ دیش کی فوج عوام کے اعتماد کی علامت ہے۔‘‘
ہفتے کو فوج کی طرف سے رات دیر گئے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ عوام کی خاطر اور ریاست کی کسی بھی ضرورت کے دوران وہ ایسا ہی کرے گی۔‘‘ بیان میں مزید یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا وہ مظاہرین کی حمایت کرتی ہے؟
سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز
بنگلہ دیش میں ابتدائی احتجاجی مظاہرے کرنے والی تنظیم ''اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمینیشن‘‘ نے ہفتے کے روز اپنے ہم وطنوں پر زور دیا تھا کہ وہ کل بروز اتوار سے مکمل عدم تعاون کی تحریک شروع کریں۔ طلبہ گروپ کے لیڈر آصف محمود نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''اس میں ٹیکسوں اور یوٹیلیٹی بلوں کی عدم ادائیگی، سرکاری ملازمین کی ہڑتالیں اور بینکوں کے ذریعے بیرون ملک سے ترسیلات زر کی ادائیگی کو روکنا شامل ہے۔‘‘
بنگلہ دیش میں تحریک سول نافرمانی کا ایک خاص پس منظر بھی ہے۔ سن 1971 میں پاکستان سے آزادی کے وقت بھی بنگلہ دیش میں ''تاریخی سول نافرمانی کی تحریک‘‘ شروع کی گئی تھی۔
شیخ حسینہ کی حکومت مشکل میں
طلبہ گزشتہ ماہ کے تشدد کی وجہ سے شیخ حسینہ سے عوامی معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ وہ ان کے کئی وزرا کی برطرفی بھی چاہتے ہیں۔ طلبہ نے یہ بھی اصرار کیا ہے کہ حکومت ملک بھر میں اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولے۔ یہ سب بدامنی کے عروج پر بند کر دیے گئے تھے۔ ہفتے کے روز ہونے والے مظاہروں میں شیخ حسینہ سے وزارت عظمیٰ چھوڑنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
ایک مظاہرے میں شریک 20 سالہ نجم یاسمین کا کہنا تھا، ''اسے (شیخ حسینہ) کو اب جانا چاہیے کیونکہ ہمیں اس آمرانہ حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ نجم یاسمین کا مزید کہنا تھا، ''کیا ہم نے اس لیے آزادی حاصل کی تھی کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اس حکومت کی گولیوں کا نشانہ بننے دیا جائے؟‘‘
الینوائے اسٹیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر علی ریاض کہتے ہیں، ''اب صورتحال بدل چکی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''حکومت کی بنیادیں ہل گئی ہیں، ناقابل تسخیریت کی چمک دم توڑ گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ شیخ حسینہ حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں یا آخری دم تک لڑیں گی؟‘‘
ا ا / ع س (اے ایف پی، روئٹرز)