بنگلہ دیش میں متنازعہ الیکشن کی ووٹنگ تشدد کے سائے میں
5 جنوری 2014مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق پولیس نے مشتعل افراد پر فائرنگ کی جبکہ الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والوں نے 100 سے زائد پولنگ اسٹیشنوں کو نذر آتش کر دیا۔ تاحال اطلاعات کے مطابق ووٹرز ٹرن آؤٹ کم رہا تاہم ووٹروں کی اصل تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری بیان اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔
ملک کے دسویں عام انتخابات کے لیے پولنگ اتوار کی صبح آٹھ بجے سے شروع ہو کر شام چار بجے تک جاری رہی۔ اب ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔ بنگلہ دیش کی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سمیت 20 جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔
اپوزیشن نے اس الیکشن کو ’شرمناک‘ قرار دیا ہے۔ اپوزیشن کے ایک ترجمان مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے ایک بیان میں الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اُن تمام بنگلہ دیشیوں کو داد دیتے ہیں، جنہوں نے اُن کے بقول اس فسخ اور بے معنی الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔
اگرچہ ان بنگلہ دیشی باشندوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ الیکشن میں آسانی سے فتح حاصل کر لے گی لیکن انتخابات کی قانونی حیثیت ایک کھلا سوال بنی ہوئی ہے۔
آج ووٹنگ کے دوران ہلاک ہونے والوں کے بارے میں گرچہ پولیس کی طرف سے کسی قسم کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں لیکن ڈھاکہ کے روزنامے اسٹار کی رپورٹوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں اپوزیشن کی جماعت اسلامی کے چار کارکن بھی شامل ہیں۔
دیگر 9 افراد ملک کے مختلف حصوں میں الیکشن کے تناظر میں ہونے والے ہنگاموں اور تشدد کی نذر ہو گئے۔ مقامی میڈیا کی خبروں میں کہا جا رہا ہے کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب تخریب کاروں نے 127 اسکولوں کو نذر آتش کر دیا جن کی عمارتوں کو آج پولنگ اسٹیشن کے طور پر بروئے کار لایا جانا تھا۔ اُدھر الیکشن کمیشن کی اطلاعات کے مطابق آج علی الصبح ہی 149 پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کا عمل معطل کر دیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق پولیس نے ملک کے شمالی ضلع رنگ پور میں مظاہرین کو ایک پولنگ مرکز پر قبضہ کرنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں دو افراد مارے گئے۔ قریبی علاقے جیسے کہ ضلع نیلفاماری میں پولیس نے قریب دو درجن مظاہرین پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں مزید دو جانیں ضائع ہوئیں۔ ڈھاکہ کے ضلع میر پور میں ووٹنگ شروع ہونے کے بعد ابتدائی دو گھنٹوں میں چوبیس ہزار رجسٹرڈ ووٹروں میں سے محض 25 اپنے ووٹ ڈالنے میں کامیاب ہو سکے۔
ملک میں حفاظتی انتظامات کے تحت انتخابات کے لیے 50 ہزار سے زائد فوجی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ ڈھاکہ میں صرف آٹھ پارلیمانی نشستوں کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں جب کہ آدھی سے زیادہ نشستیں ایسی بھی ہیں، جن پر حکمران عوامی لیگ کے امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔