بنگلہ دیش میں پوپ فرانسس کی چند روہنگیا مسلمانوں سے ملاقات
1 دسمبر 2017بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں پاپائے روم نے جمعے کے روز ایک بڑے مذہبی اجتماع سے خطاب کیا۔ پوپ فرانسس ایک کھلی گاڑی میں ڈھاکا کے سہروردی پارک میں داخل ہوئے جہاں لاکھوں افراد ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ اس پارک کی اہمیت جنوبی ایشیائی تاریخ میں غیر معمولی ہے۔ اس مقام کو سن 1971 میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے والے اس ملک کی ایک یادگار سمجھا جاتا ہے اور یہاں ایک میوزیم بھی قائم ہے۔
اس موقع پر کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا نے لوگوں کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ بہت دور سے آئے ہیں اور آپ کی آمد سے آپ کے دلوں میں چرچ کی محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘۔ بنگلہ دیش میں کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھنے والے افراد ملک کی کُل آبادی کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں۔
پوپ واپسی میں ہماری مدد کریں، روہنگیا مہاجرین کی اپیل
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ گزشتہ روز جمعرات کو پوپ فرانسس نے بنگلہ دیش میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ ’سیاسی تنازعہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے اس بحران کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہیں‘۔ مزید یہ کہ پوپ نے دیگر ممالک سے اپیل کی کہ وہ روہنگیا مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ڈھاکا حکومت کی مدد کریں۔
میانمار میں خطاب، پوپ فرانسس نے روہنگیا کا حوالہ نہ دیا
آج جمعے کو پوپ فرانسس ایک بین المذاہب تقریب میں حصہ لے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پوپ اس موقع پر پناہ کے متلاشی روہنگیا مہاجرین سے ملاقات بھی کریں گے۔ اُدھر ویٹیکن کے ترجمان نے بتایا ہے کہ اس تقریب میں ’کوکسس بازار‘ کے مہاجر کیمپوں سے 18 روہنگیا مہاجرین کو پوپ سے ملاقات کے لیے خاص طور سے لایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ میانمار میں اپنے دورے کے دوران پوپ نے روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن پر بیان دینے سے گریز کیا تھا۔
روہنگیا مسلمانوں کے بچاؤ کے لیے امدادی بحری جہاز روانہ
رواں برس اگست میں شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کی وجہ سے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلم افراد بنگلہ دیش فرار ہوئے تھے۔ لاکھوں روہنگیا مہاجرین کو راکھین ریاست سے بنگلہ دیش کے دارالحکومت تک پہنچایا گیا تھا۔ لیکن نقل مکانی کے اس عمل میں روہنگیا مہاجرین کے قتل ہونے اورعورتوں کو ریپ کیے جانے جیسے مبینہ واقعات پیش آئے تھے۔ دوسری جانب اقوامِ متحدہ اور امریکا نے میانمار حکومت کی روہنگیا باشندوں کے خلاف نسلی امتیاز سے عبارت پالیسی کو’ایتھنک کلینزنگ‘ یعنی ’نسلی تطہیر‘ قرار دیا تھا۔