بنگلہ دیش ووٹنگ کا عمل مکمل، حسینہ واجد کی جیت یقینی
7 جنوری 2024بنگلہ دیش میں آج اتوار کے روز عام انتخابات میں پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ بنگلہ دیشی الیکشن کمشن کے مطابق پولنگ ختم ہونے سے ایک گھنٹہ قبل تک ووٹر ٹرن آؤٹ 27.15 فیصد تھا۔ ووٹ ڈالنے والوں کی یہ تعداد گزشتہ یعنی 2018ء کے انتخابات کے 80 فیصد ٹرن آؤٹ کے مقابلے میں خاصی کم رہی۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا، جس کے بعد توقع ہے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ لگاتار چوتھی جبکہ مجموعی طور پر پانچویں مرتبہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالیں گی۔ اتوار کو پولنگ کا عمل مجموعی طور پر پر امن رہا تاہم بعض مقامات سے تشدد اور ووٹنگ میں روکاوٹوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ تقریباً 170 ملین آبادی والے ملک میں ووٹنگ مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہو کر شام پانچ بجے تک جاری رہی۔
ابتدائی نتائج پیر تک متوقع
300 پارلیمانی نشستوں پر براہ راست انتخابات کے لیے تقریباً 2000 امیدوار مد مقابل تھے۔ ان انتخابات میں سن 2001 کے بعد سب سے زیادہ یعنی 436 آزاد امیدواروں نے بھی حصہ لیا۔
پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کے لیے ملک بھر میں فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا۔ بنگلہ دیش کو اس وقت ایک سیاسی ہنگامہ آرائی کا سامنا ہے کیونکہ اپوزیشن انتخابات کی ساکھ پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ انتخابات سے پہلے کی مدت معاشی سست روی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن سے متاثرہ ملک میں مظاہروں کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔
ہڑتال کی کال
بی این پی نے ہفتہ سے دو روزہ ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے اور وزیر اعظم حسینہ واجد کے استعفے کے ساتھ ساتھ انتخابات کرانے کے لیے ایک غیر جانبدار اتھارٹی کے قیام پر زور دیا ہے۔ حسینہ نے ڈھاکہ کے سٹی کالج میں اپنی بیٹی اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ ووٹ ڈالنے کے بعد صحافیوں کو بتایا، ''بی این پی ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ میں اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہوں کہ اس ملک میں جمہوریت برقرار رہے۔‘‘
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ نے انتخابات کو منصفانہ بنانے کے لیے آزاد امیدواروں کے طور پر 'ڈمی‘ امیدواروں کو کھڑا کیا ہے۔ حزب اختلاف کی مرکزی رہنما خالدہ ضیاء بدعنوانی کے الزامات کے تحت مؤثر طریقے سے گھر میں نظر بند ہیں۔ خالدہ ضیا ان الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔
'تشدد کی ذمہ دار اپوزیشن‘
خیال رہے کہ دو طاقتور خواتین یعنی حسینہ واجد اور خالدہ ضیا ء کے مابین دشمنی نے ملک میں سیاسی تقیسم کو رواج دیا ہے۔ خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق رحمان بی این پی کے قائم مقام چیئرمین ہیں۔ تاہم وہ لندن میں جلاوطن ہیں۔ حسینہ نے ان تمام دعوؤں کی تردید کی ہے اور حزب اختلاف پر حکومت مخالف مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے جس میں گزشتہ سال اکتوبر سے کم از کم 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بنگلہ دیش میں 2022 ء سے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ اور کئی پاور بلیک آؤٹ بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔
ملک کا گارمنٹ سیکٹر، جو اس کی سالانہ برآمدات کا 85 فیصد حصہ ہے، اجرتوں کے تعین میں جمود کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناقص حفاظتی انتظامات کی وجہ سے پچھلے سال کچھ گارمنٹس فیکٹریوں میں آگ لگ گئی تھی اور کئی بند ہو گئی تھیں۔
ش ر ⁄ ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)