1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیات

بنگلہ دیش: چھوٹے ٹائیگر کے بڑے منصوبے

امتیاز احمد تھوماس کوہل مان
25 دسمبر 2018

بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے لیکن یہ انتہائی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ٹیکسٹائل برآمدات کی وجہ سے اس کی معیشت توانا ہو رہی ہے اور اس میدان میں یہ پاکستان اور بھارت کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Acrj
Bangladesch Bau der Padma Bridge in Dhaka
تصویر: picture-alliance/NurPhoto

بنگلہ دیش ترقی کر رہا ہے اور کئی شعبوں میں وہ ’جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے ایک مثال‘ ہے۔ یہ الفاظ حکومتی سربراہ شیخ حسینہ کے نہیں ہیں، جو تیس دسمبر کے انتخابات کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتی ہیں۔ یہ الفاط مؤقر برطانوی جریدے ’اکانومسٹ‘ کے ہیں۔ ایک سو پینسٹھ ملین نفوس پر مشتمل اس ملک کی گزشتہ دہائی کی ترقی قابل ستائش ہے۔

سن دو ہزار آٹھ کے بعد سے اس ملک کی اقتصادی شرح نمو چھ فیصد سے زائد چلی آ رہی ہے۔ گزشتہ برس جی ڈی پی کی سالانہ شرح سات اعشاریہ تین فیصد رہی، جو کہ بھارت اور پاکستان سے بھی زیادہ ہے۔ اگر امریکی ڈالر کو بنیاد بنایا جائے، تو اس ملک میں  فی کس سالانہ پیداوار پاکستان سے زیادہ بنتی ہے۔

پاکستان کو ’بنگلہ دیش بننے‘ کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟

بنگلہ دیش کی سالانہ اقتصادی نمو میں صنعتی حصہ تقریباﹰ تیس فیصد بنتا ہے جبکہ انیس سو اکہتر میں پاکستان سے علیحدگی کے وقت اس دور کے مشرقی پاکستان میں یہ حصہ صرف سات فیصد تھا۔ سن انیس سو ستر میں اس کو ایک تباہ کن طوفان کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بعد ازاں بنگلہ دیش کے پہلے حکومتی سربراہ شیخ مجیب الرحمان کا کہنا تھا کہ اس وقت لاشوں کی تدفین کے لیے کفن کی خاطر کپڑا بھی کافی نہیں تھا۔ اب یہی ملک پاکستان اور بھارت دونوں سے زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے۔

Bangladesch Textilfabrik Dhaka | Arbeiterinnen
اگر امریکی ڈالر کو بنیاد بنایا جائے، تو اس ملک میں  فی کس سالانہ پیداوار پاکستان سے زیادہ بنتی ہےتصویر: Getty Images/AFP/M. uz Zaman

بھارت اور پاکستان سے آگے

بنگلہ دیش میں بچوں کی شرح اموات بھی پاکستان اور بھارت سے کم ہے جبکہ اس ملک میں اسکول جانے والے بچوں کی شرح بھی ان دونوں ملکوں سے کہیں زیادہ فیصد ہے۔ بنگلہ دیش کے شہریوں کی متوقع اوسط عمر بھی پاکستان اور بھارت کے شہریوں سے زیادہ ہے۔

واشنگٹن میں انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے گلوبل ہنگر انڈکس کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس بنگلہ دیش میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے شہریوں کی تعداد ساڑھے چھبیس فیصد تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک کو ابھی تک سنگین مسائل کا سامنا ہے لیکن سن انیس سو بانوے کے مقابلے میں یہ تعداد نصف ہے۔ اس وقت یہ شرح تریپن اعشاریہ چھ فیصد بنتی تھی۔ دوسری جانب پاکستان اور بھارت میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے شہریوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔

بنگلہ دیش کی اس کامیابی کے پیچھے بنیادی وجہ بچوں کی شرح پیدائش ہے۔ عالمی بینک کے سن دو ہزار سولہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پچوں کی شرح پیدائش فی عورت 3.5 ہے جبکہ بنگلہ دیش میں یہ شرح بھارت (2.3) سے بھی کم ہے، جو 2.1 بنتی ہے۔

اس کے علاوہ حکومتی ترقیاتی منصوبے بھی اس ملک کی اقتصادی ترقی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ ملک نہ صرف چین بلکہ بھارت کی توجہ کا بھی مرکز ہے۔ یہ دونوں ممالک اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

اکانومسٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے آئندہ مزید ترقی کرنے کے مواقع اور امکانات بہت زیادہ ہیں لیکن داخلی سیاست کی وجہ سے وہ اپنی اقتصادی ترقی کی راہ میں خود ہی ایک بڑی رکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔