بون میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز
9 اپریل 2010مختلف براعظموں سے عالمی ماحول کے تحفظ کے لئے اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے مذاکراتی نمائندوں کی کوشش ہو گی کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لئے ایک نئے عالمگیر معاہدے سے متعلق بات چیت کو نئی تحریک دی جائے۔
تاہم بون کے اس عالمی اجتماع میں اس بارے میں کافی زیادہ اختلاف رائے پیدا ہونے کا خدشہ بھی ہے کہ چار ماہ قبل ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہونے والی گزشتہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں اگر کوئی بڑے فیصلے نہیں کئے جا سکے تھے، تو اس کا ذمہ دار کون تھا۔
بون کی اس عالمی ماحولیاتی مشاورتی کانفرنس میں جمعہ سے اتوار تک کی کارروائی میں ایک کھلا اجلاس اس بارے میں بھی ہو گا کہ اس وقت عالمی سطح پر تحفظ ماحول کی کوششوں کی صورت حال کیا ہے۔
مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق گرما گرم بحث اور ممکنہ طور پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کی صورت میں ایسا غالبا اسی کھلے اجلاس میں دیکھنے میں آئے گا کہ عالمی سطح پر سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے سلسلے میں دسمبر میں ہونے والی کوپن ہیگن کانفرنس میں کوئی جامع اور ٹھوس پیش رفت نہ ہونے کے بعد اب عالمی برادری میں کس کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔
کوپن ہیگن کانفرنس یوں تو دنیا میں آج تک کی سب سے بڑی ماحولیاتی کانفرنس تھی، جس میں 120 ملکوں کے سربراہان شریک ہوئے تھے، تاہم اس کانفرنس کو امریکی صدر باراک اوباما اور چند درجن دیگر رہنماؤں کی کوششوں سے بالکل آخری وقت پر ہی مکمل ناکامی سے بچایا جا سکا تھا۔
بون میں نو اپریل سے شروع ہونے والی عالمی مشاورتی کانفرنس دراصل ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنوینشن UNFCCC کے دائرہ کار کے تحت ہونے والا اجتماع ہے، جس کے بعد ’بڑی معیشتوں کے فورم‘ کا اسی موضوع پر ایک اجلاس واشنگٹں میں 18 اور 19 اپریل کو ہو گا۔
’بڑی معیشتوں کا فورم‘ یا Major Economies Forum عالمی اقتصادیات میں اہم کردار ادا کرنے والی دنیا کی ان 17 بڑی ریاستوں کا پلیٹ فارم ہے، جو ماحول کے لئے نقصان دہ سبز مکانی گیسوں میں سے 80 فیصد کے اخراج کی ذمہ دار ہیں۔ ان 17ملکوں میں سات کے گروپ کے صنعتی ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں اور چین اور بھارت جیسے وہ ترقی پذیر ملک بھی جو اب بڑی اقتصادی طاقتیں بن چکے ہیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: ندیم گِل