بون کانفرنس کے اعلامیے کا بغور جائزہ لیں گے، حنا ربانی کھر
6 دسمبر 2011حنا ربانی کھر نے ویسٹرویلے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بون کانفرنس کے اعلامیے کا بغور جائزہ لے گا۔ انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لیے جرمنی کی کوششوں کو سراہا۔ ادھر حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن نے بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے پر قائم رہنے کے حکومتی اقدام کو درست قرار دیا ہے۔ ن لیگ کے رہنماء انجینئر خرم دستگیر نے کہا، ’’بون کانفرنس اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکی کیونکہ اس میں نہ پاکستان نے اور نہ ہی افغانستان میں مزاحمت کرنے والے طالبان نے حصہ لیا۔ ان دونوں کا کردار مستقبل میں افغانستان میں قیام امن کے لیے انتہائی اہم ہے۔‘‘
بون کانفرنس میں شریک ممالک کی جانب سے 2014ء کے بعد بھی افغانستان کی مدد جاری رکھنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کی جانب سے اب تک دی جانیوالی امداد پر 90 سے 95 فیصد حصہ فوجی امداد کی شکل میں تھا لہٰذا اس میں اقتصادی ترقی کا حجم بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا،’’
اس وقت امریکہ اور یورپ خود مالی بحران کا شکار ہیں تو ان ممالک کے لیے آسان نہیں ہو گا کہ وہ گزشتہ دس سالوں میں جس طرح افغانستان کی امداد کرتے رہے ہوں اب بھی اسی طرح جاری رکھ سکیں۔‘‘
دوسری جانب بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا کہ پاکستان نے بون کانفرنس میں شرکت نہ کر کے اپنا احتجاج موثر طریقے سے ریکارڈ کروا لیا ہے اور اب اسے ان ممالک کے ساتھ دوبارہ تعلقات کی بہتری کے لیے سوچنا چاہیے۔ دفاعی تجزیہ نگار ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری نے کہا،’’آپ جب ایک قدم اٹھاتے ہیں تو اس کی اپنی میعاد ہوتی ہے اس کے بعد اس کا جو ریٹرن ہے وہ کم سے کم تر ہونا شروع ہو جاتا ہے تو میرا خیال ہے کہ پاکستان کو بھی یہ تعین کرنا پڑے گا کہ انہوں نے جو اقدامات لیے یا فیصلے کیے ان کا اثر کب تک رہے گا۔‘‘
شہزاد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسا ممبئی میں ہندوستان نے فیصلہ کہ وہ پاکستان سے بات نہیں کرے گا لیکن اٹھارہ انیس ماہ گزرنے کے بعد جب پاکستان نے کچھ نہیں کیا تو ہندوستان خود ہی بات چیت پر مجبور ہو گیا۔
دریں اثناء امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے امریکی فوجی حکام کے حوالے سے یہ خبر دی ہے کہ پاکستان نے پاک افغان سرحد پر امریکی نیٹو افواج سے رابطے کے لیے قائم دو مراکز سے اپنے فوجیوں کو واپس بلا لیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس اقدام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیٹو کی جانب سے اپنے فوجیوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ ابھی مزید جاری رکھنا چاہتا ہے۔
تاہم سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان کا کہنا ہے کہ سپر پاور کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے بہت سی باتوں کا دھیان رکھنا پڑتا ہے انہوں نے کہا،’’ یہ اس وقت بھی آسان نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے کہ آپ ان کے ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر گرا دیں کیونکہ پھر وہ جو انتقام لیں گے اس کا پیمانہ بہت وسیع ہوگا اور اس سے نبردآزما ہونا پاکستان کے لیے شاید آسان نہ ہوجو ہو سکتا تھا وہ یہی ہے جو کیا گیا۔‘‘
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں