بچوں کو جنگ میں بھیجیں، یمنی باغی حکومت کے وزیر کا مشورہ
20 اکتوبر 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران نواز حوثی باغیوں کی قائم کردہ حکومت کے نوجوانوں کے امور اور کھیلوں کے وزیر حسن زید کی طرف سے طلبہ اور اساتذہ کو مسلح کرنے اور انہیں محاذ جنگ پر بھیجنے کا مشورہ آج جمعہ 20 اکتوبر کو دیا گیا ہے۔ حوثی باغیوں کی اس حکومت کو عالمی برادری کی طرف سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔
اے ایف پی کے مطابق حسن زید نے اپنے فیس بُک پر لکھا ہے، ’’کیا ہم لاکھوں (جنگجوؤں) کو اپنی فورسز میں شامل کر کے اپنی قوت بڑھانے اور جنگ جیتنے کے قابل نہیں ہو جائیں گے؟‘‘
حوثی باغیوں اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی فورسز کے درمیان جنگ کے سبب یمن تباہ حال ہے۔ حوثی باغیوں کے پاس درالحکومت صنعاء کا کنٹرول ہے جبکہ سعودی سربراہی میں قائم اتحادیوں کے حمایت یافتہ صدر عبد ربو منصور ہادی نے بندرگاہی شہر عدن کو اپنا حکومتی مرکز بنایا ہوا ہے۔
باغیوں کے کنٹرول والے علاقے میں اسکولوں کے اساتذہ کو ایک سال سے تنخواہیں نہیں مل رہیں جس کی وجہ سے انہوں نے ہڑتال کر رکھی ہے اور اسی سبب نئے سال کی اسکول کی کلاسیں دو ہفتے تاخیر سے شروع ہوئیں۔ تاہم جب اتوار کے روز کلاسوں کی ابتداء ہوئی تو زیادہ تر کلاسوں میں بچے ہی نہیں تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق باغیوں کی حکومت کے وزیر کی مذکورہ پوسٹ پر سوشل میڈیا میں بہت زیادہ غم وغصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
فیس بُک استعمال کرنے والے ایک صارف نے لکھا، ’’اگر ہم طلبہ کو تو تعلیم حاصل کرنے دیں اور وزراء اور ان کے باڈی گارڈز کو محاذ جنگ پر بھیج دیں تو کیسا رہے گا؟ اس صارف نے مزید لکھا، ’’اس سے ہمیں فتح بھی حاصل ہو گی اور تابناک مستقبل بھی۔‘‘
تاہم وزیر برائے امور نوجوانان اور کھیل حسین زید نے اُن افراد کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جنہوں نے ان کی تجویز پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’لوگ ہڑتال کے تناظر میں اسکولوں کو بند کرتے ہیں اور جب اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا سوچتے ہیں تو پھر اعتراض کرتے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے اندازوں کے مطابق یمن میں 13 ہزار سے زائد اسکول تنخواہیں نہ ملنے کے سبب متاثر ہوئے ہیں اور یہ پورے یمن کے قریب 78 فیصد اسکول بنتے ہیں۔ یونیسف کے مطابق مسلح تنازعے کے سبب 500 سے زائد اسکول تباہ ہوئے۔
سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد کی طرف سے یمن میں 2015ء میں حملوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس وقت سے اب تک نو ہزار کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ڈیڑھ ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں فریقین پر الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ نو عمروں کو جنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔