1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے کيسز میں اضافہ: اسباب کیا ہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
6 جولائی 2019

قصور میں زینب کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد ملک بھر میں ايسے واقعات کے حوالے سے غصے کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن اس کے باوجود بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Lg4e
Protest in Karachi nach der Ermordung der siebenjährigen Zainab
تصویر: Faria Sahar

اس بات کا اعتراف خود وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی اسلام آباد میں اسی ہفتے منقعدہ ایک تقریب میں کیا۔ بچوں کے حقوق کے ليے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قانون پر سختی سے عملدرآمد نہیں ہو رہا اور اسی ليے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

واضح رہے کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں تین ہزار آٹھ سو بتیس ایسے واقعات ہوئے جبکہ رواں سال بھی سینکڑوں ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی رکن انیس ہارون کے خیال میں قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ''لیکن اس کا صرف يہ ہی سبب نہیں۔ میرے خیال میں ہمارے پاس referral system ہونا چاہیے کیونکہ جب کوئی بچہ جنسی زیادتی کا شکار بنتا ہے، تو اسے نفسیات دان، پولیس، اساتذہ اور قانونی مشیر سب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے ليے حفاظتی یونٹس ملک بھر میں ہونے چاہیيں۔ سندھ میں ایسے تیرہ سے سولہ یونٹس کام کر رہے ہیں۔‘‘

پاکستان میں کئی قدامت پرست ظلم کے شکار افراد پر ہی ان کے اوپر ہونے والے مظالم کا الزام ڈال دیتے ہیں۔ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پولیس اور عدلیہ کا بھی ظلم و زیادتی کے شکار ہونے والے بچوں کے ساتھ اچھا رویہ نہیں ہوتا۔ چائلڈ رائٹس موومنٹ پاکستان کے نیشنل کوآرڈینٹر گوہر ممتاز کے خیال میں پولیس جنسی زیادتی کے شکار بچوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کرتی ہے۔ ''والدین اور بچوں کے درمیان جو کمیونیکیشن گیپ ہے، وہ ابھی ان واقعات کو دبانے کا سبب بنتا ہے۔ معاشرہ میں بچے کو صرف خاموش رہنے کی تربیت دی جاتی ہے اور بڑوں پر اندھا اعتماد کرنا سکھایا جاتا ہے۔ انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کیا ہے۔ والدین بچوں سے اس موضوع پر نہ ہی کھل کر بات کرتے ہیں اور ان کی تربیت کرتے ہیں۔ اسکول میں بھی یہ موضوع شجرِ ممنوع ہے۔‘‘

قصور میں زینب کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد ملک بھر میں ايسے واقعات کے حوالے سے غصے کی لہر دوڑ گئی تھی
قصور میں زینب کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد ملک بھر میں ايسے واقعات کے حوالے سے غصے کی لہر دوڑ گئی تھیتصویر: Twitter

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا اس حوالے سے آگہی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ''لیکن ہمارے میڈیا کی ساری توجہ سیاست پر ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ پنجاب حکومت نے بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف آگہی سے متعلق ایک کتابچہ تیار کیا تھا۔ اس کو بہت سے ماہرین کے مشورے کے بعد تیار کیا گيا تھا اور اس کو اسکولوں میں پڑھایا جانا تھا لیکن اب یہ کتابچہ موجودہ حکومت نے غائب کر دیا ہے اور کچھ اس کا پتہ نہیں چل رہا۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ بات میڈیا پر کہیں نظر نہیں آتی۔‘‘

دوہزار سترہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے تین ہزار چار سو پینتالیس واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں دو ہزار اٹھارہ میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا ۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات آصف رضا کے خیال میں اسکول اور کمیونٹی کی سطح پر نہ صرف اس مسئلے پر کھل کر بات ہونی چاہیے بلکہ بچوں کی تربیت میں چیزوں کو تنقیدی اندازمیں دیکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے اور مختلف پیشوں کے گرد تقدیس کا ہالہ نہیں بننا چاہیے۔ ''مثال کے طور پر ہمارے ہاں مذہبی تعلیم دینے والے اساتذہ کو بہت زیادہ مقدس بنا دیا جاتا ہے۔ آپ اخبارات اٹھا کہ دیکھ لیں ایک بڑی تعداد اس طبقے کی نہ صرف بچوں پر تشدد کرنے میں ملوث ہے بلکہ وہ ان کو جنسی زیادتی کا بھی نشانہ بناتے ہیں۔ اگر تقدیس کا تصور نہیں ہوگا، توبچہ بغیر کسی خوف کے کسی بھی غیر معمولی حرکت کو والدین کے ساتھ شیئر کر سکتا ہے۔ لیکن کیونکہ بچے کو معلوم ہے کہ والدین قاری یا کسی مولوی کی بہت عزت کرتے ہیں، اس ليے وہ ایسے واقعات کو بیان کرنے سے ڈرتا ہے۔‘‘

آصف رضا کا مزيد کہنا تھا کہ معاشرے کا مجموعی طور پر کمزور کے خلاف رویہ بہت برا ہے۔ ''کیونہ بچے کمزور ہوتے ہیں، اس ليے ان پر حملہ آسان ہو جاتا ہے۔ اگر قوانین پر سختی سے عمل در آمد کیا جائے تو اس کا سدباب ممکن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجموعی سماجی تبدیلی اور رویوں میں تبدیلی بھی اہم ہے۔‘‘

’بچیوں کے تحفظ کے لیے ضرب عضب جیسے آپریشن کی ضرورت ہے‘