بچے آخر محفوظ کہاں ہیں؟
14 جولائی 2024بہت سے واقعات میں ہوتا یوں ہے کہ والدین اپنے کم عمر بچے گھریلو ملازمین کو سونپ کر خود تو بے فکر ہو جاتے ہیں مگر بچے بار بار جسمانی اور جذباتی استحصال کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ کیئر ٹیکر، ڈرائیور یا باورچی کے طور پر بھرتی کیے گئے انہی گھریلو ملازمین کے ہاتھوں، جو دراصل ان کے محافظ ہوتے ہیں۔ ایسے جرائم متاثرہ بچوں کی شخصیت اور نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔
کسی بچے کو جسمانی طور پر ہراساں کرنے یا اس کا جنسی استحصال کرنے والا مجرم کوئی بھی ملازم ہو سکتا ہے۔ اس جرم کے ارتکاب میں ملازم یا ملازمہ کی عمر، بچے سے رشتہ یا سماجی رتبہ فیصلہ کن نہیں ہوتے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کئی واقعات میں بچے اپنے گھر میں ہی گھریلو ملازمین کے ہاتھوں جنسی استحصال اور زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں تو کئی دیگر واقعات میں ان کے ساتھ یہ ظلم ان کے رشتے دار یا والدین کے جاننے والے افراد کرتے ہیں۔
والدین کا رشتہ داروں اور ملازمین پر بھروسہ
شمائل فاطمہ (ان کے شہر کا نام دانستہ نہیں لکھا جا رہا) ایسی ہی ایک پاکستانی ماں ہیں، جنہیں علم نہ ہو سکا کہ ان کا اب دس سالہ بیٹا چند سال تک جسمانی استحصال کا شکار ہوتا رہا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اور میرا شوہر دونوں ملازمت پیشہ ہونے کے باعث اکثر گھر سے باہر رہتے اور اپنے کم عمر بیٹے کو گھریلو ملازم کی حفاظت میں چھوڑ جاتے۔ ایک روز اچانک جب میں جلد گھر لوٹی، تو میں نے اس سترہ سالہ ملازم کو اپنے بیٹے کے ساتھ نازیبا جسمانی حرکات کرتے ہوئے پایا۔ وہ ملازم تو پکڑے جانے کے خوف سے اسی وقت بھاگ گیا لیکن جب میں نے اپنے بیٹے سے تفصیلی استفسار کیا تو پتہ چلا کہ وہ ملازم تو کافی عرصے سے ایسی حرکتیں کر رہا تھا۔‘‘
اسلام آباد کی رہائشی ماریہ (پورا نام دانستہ نہیں لکھا جا رہا) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی بیٹی اب نو برس کی ہے لیکن جب وہ صرف چھ برس کی تھی، تو ایک روز باورچی رکھا گیا ملازم اسے بہلا کر اپنے سرونٹ کوارٹر میں لے گیا۔ وہاں اس نے بچی کا جنسی استحصال کرنے کی کوشش کی اور جب وہ چیخنے لگی تو ملزم اسے وہیں چھوڑ کر فرار ہو گیا۔
بچوں کو جنسی استحصال سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟
ماریہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی اس وقت تو بہت خوف زدہ تھی اور بعد میں کافی عرصے تک کوئی بات بھی نہیں کرتی تھی۔ انہوں نے کہا، ''ہم نے کافی دیر تک اپنی بیٹی کا نفسیاتی علاج کرایا، تو اس کی ذہنی حالت اور نفسیاتی رویہ تسلی بخش حد تک بہتر ہو سکے تھے۔‘‘
ماریہ نے بطور ماں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، ''اس واقعے کے بعد مجھے ادراک ہوا کہ گھریلو ملازم ان کے بارے میں اچھی طرح چھان بین کے بعد ہی رکھے جانا چاہئیں اور ان کی بھی کڑی نگرانی ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے کہ بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے تو ہر جگہ ہو سکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں۔‘‘
بچوں کو کسی کے ساتھ تنہا نہ چھوڑیں
پاکستان میں ''محفوظ بچپن‘‘ کے نام سے سن دو ہزار اٹھارہ میں شروع کی گئی ایک تحریک کی بانی بشریٰ اقبال حسین نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسے واقعات تواتر سے سامنے آتے رہتے ہیں، والدین اپنے بچوں کے، جن کیئر ٹیکرز پر بڑا بھروسہ کرتے ہیں، وہی بچوں کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے بتایا، ''حال ہی میں میرے پاس ایک کیس رپورٹ ہوا۔ اس واقعے میں ایک نابالغ ملازمہ، جو خود بھی صرف بارہ سال کی تھی، ایک پانچ سالہ بچے کے ساتھ ایک پارک میں تھی۔ وہ اس بچے کے جنسی اعضا کو چھو رہی تھی اور بچہ مسلسل رو رہا تھا۔ پارک میں دو خواتین نے یہ دیکھا تو ہمیں اطلاع دی۔ لیکن جب ہم نے یہ بات اس بچے کے والدین تک پہنچائی، تو وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہ ہوئے کہ ایسا کچھ ہوا ہو گا۔ ان کا بلکہ یہ کہنا تھا کہ وہ بچی تو کافی عرصےسے ان کے ہاں کام کر رہی تھی اور ان کے بیٹے کا بہت خیال رکھتی تھی۔‘‘
بشریٰ اقبال حسین نے مزید بتایا کہ ان کے پاس ایک اور کیس ایسا بھی آیا، جس میں ایک تیرہ سالہ گھریلو ملازمہ نے ایک کم سن بچے کے دونوں ہاتھ گرم پانی میں ڈال کر اس لیے زخمی کر دیے تھے کہ وہ اپنی مالکن کے رویے اور بے تحاشا کام سے بہت تنگ تھی،''ایسے مجرمانہ واقعات سے بچاؤ کے لیے ایک حل تو یہ ہے کہ ہر ادارے میں ڈے کیئر سینٹر ہونا چاہیے۔ دوسری اہم بات یہ کہ والدین میں سے کوئی ایک ضرور بچوں کے پاس رہے۔ ایسا کئی والدین کرتے ہیں۔ لیکن سارے نہیں۔‘‘
بچوں کے حقوق اور ان کے جسمانی تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم ''ساحل‘‘ کے میڈیا کوآرڈینیٹر وقاص حمید نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتکو کرتے ہوئے بتایا، ''گھریلو ملازمین کے ہاتھوں بچوں کے جنسی استحصال اور بچوں پر جسمانی تشدد کے واقعات سننے میں تو ضرور آتے ہیں، لیکن افسوس کہ ایسے جرائم پولیس کو اکثر رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ رشتے داروں یا جاننے والوں کے ہاتھوں بچوں کے اغوا، جنسی زیادتی یا قتل جیسے انتہائی نوعیت کے جرائم ہمارے پاس کافی زیادہ تعداد میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ ان کی بنیاد پر ساحل کی طرف سے ہر سال ایک رپورٹ بھی جاری کی جاتی ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمیں بھی ہزاروں میں سے صرف چند سو واقعات ہی کی رپورٹ ملتی ہے۔‘‘
ریپ کے بعد حمل، اسقاط کی پرخطر کوششیں: جنین کے بعد تیرہ سالہ پاکستانی لڑکی بھی ہلاک
وقاص حمید نے بتایا کہ ان کے ادارے کو جب بھی کوئی کیس رپورٹ کیا جاتا ہے، تو ساحل کے کارکن پولیس سے ضروری تفصیلات جان کر خود والدین اور متاثرہ بچے سے ملتے ہیں اور پھر اس کیس کی مفت قانونی پیروی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ مجرم کو سزا دلوائی جا سکے، لیکن ساتھ ہی متاثرہ بچے کی باقاعدہ کونسلنگ بھی کی جاتی ہے۔
بچوں کے بدلتے رویے، لمحہ فکریہ
بحریہ یونیورسٹی کے اسکول آف سائیکالوجی کی پرنسپل اور مینٹل ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر صائمہ کلثوم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے پاس آئے روز ایسے کیس آتے ہیں، جن میں بچے اپنے ہی گھر میں ملازمین یا قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں ریپ یا جنسی استحصال کا شکار ہوئے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ''میرے پاس آنے والے زیادہ تر والدین کی پہلی شرط یہی ہوتی ہے کہ متاثرہ بچے کا نفسیاتی علاج تو کرانا ہے، لیکن بچے اور اس کے خاندان کی شناخت اور کیس کی نوعیت پوشیدہ ہی رکھی جانا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر صائمہ کلثوم کے بقول ان کے پاس علاج کے لیے آنے والے ایسے بچوں کے رویے بہت متنوع ہوتے ہیں۔ کوئی بچہ کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے تو کوئی بولنا بند کر چکا ہوتا ہے۔ کچھ لڑکے لڑکیوں کو 'پینِک اٹیک‘ ہونے لگتے ہیں تو کچھ لوگوں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ متاثرہ بچوں کے نفسیاتی علاج کے دورانیے کا انحصار ان کی ذہنی حالت پر ہوتا ہے۔ دوران علاج انہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ جو کچھ ہوا، اس میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں، اس لیے کہ زیادہ تر بچے خود کو قصور وار سمجھنے لگتے ہیں۔
عمر بھر کی تلخ یادیں
بحریہ یونیورسٹی کے اسکول آف سائیکالوجی کی پرنسپل نے زور دیتے ہوئے کہا، ''بہت ضروری ہے کہ ہمارے ہاں بھی کریمینل سائیکالوجسٹ اور فورینزک سائیکالوجسٹ ہوں، اس لیے کہ مظلوم کے ساتھ ساتھ ظالم کا نفسیاتی علاج بھی رواج پا سکے۔ ایسے مجرموں کو سخت سزائیں بھی اس لیے سنائی جانا چاہئیں کہ انہوں نے جو جرم ایک بار کیا ہو، وہ ان کی عادت نہ بنے۔‘‘
ڈاکٹر صائمہ کلثوم کے مطابق ان کے پاس یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کےجتنے بھی کیسز آتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کے پیچھے بچپن میں ریپ، جنسی استحصال یا پھر جسمانی یا جذباتی تشدد کا کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے، جسے بچپن میں تو دبا دیا گیا ہو، مگر جو بالغ انسان کے طور پر متاثرہ فرد کی شخصیت پر لگا گہرا زخم بن چکا ہوتا ہے۔