بچے اپنی مادری زبان میں روتے ہیں، نئی تحقیق
25 دسمبر 2009فرانس اور جرمنی میں مشترکہ طور پر ہونے والی اس تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچے دراصل اپنے مادری لہجے میں روتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق اپنی پیدائش کے ابتدائی دنوں میں ہی فرانسیسی بچے، جرمن بچوں سے مختلف انداز میں روتے ہیں کیونکہ ان کی آواز کے سُر دھیمے پن سے بلندی کی طرف جاتے ہیں، جبکہ جرمن بچوں کی آواز کے اونچے سُر بتدریج دھیمے ہوتے جاتے ہیں۔
محققین کے مطابق اس کی ممکنہ وجہ دونوں زبانوں کے درمیان لہجے یا بولتے ہوئے آواز کے زیر و بم میں نمایاں فرق ہے۔ سائنسی تحقیقی جریدے کرنٹ بائیالوجی "Current Biology" میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق بچے اپنا مادری لہجہ دراصل رحم مادر ہی میں اپنا لیتے ہیں۔
جرمنی کی Wuerzburg یونیورسٹی، جرمن میکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے انسانی ذہانت پر تحقیق کرنے والے ادارے Max Plank Institute for Human Cognitive and Brain Sciences اور انسانی ذہانت، زبان دانی اور سائیکالوجی پر تحقیق کرنے والے فرانسیسی ادارے کی مشترکہ تحقیق کے مطابق بچہ دراصل پیدائش سے قبل ہی زبان سیکھنا شروع کردیتا ہے۔
اس تحقیق کا مقصد دراصل اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش تھی کہ بچوں میں بے ربط رونے کا عمل کب زبان دانی کی ابتدا بنتا ہے۔ اس تحقیق کے لئے نومولود فرانسیسی اور جرمن بچوں کی رونے کی آوازیں ریکارڈ کرکے ان کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا۔
مشاہدے میں شامل بچوں میں سے جیسے ہی کوئی بچہ بھوک، تکلیف یا کسی اور وجہ سے رونا شروع کرتا، محققین کی ایک ٹیم اپنے مائیکروفونز اور ریکارڈنگ سسٹم کے ساتھ ان کی صوتی شکایت ریکارڈ کرنے کے لئے موجود ہوتے۔
Wuerzburg یونیورسٹی کی محققہ کیتھلین ورمکے کے مطابق ہم نے پہلی مرتبہ اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ بولنے کا عمل دراصل پہلی مرتبہ رونے سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔
یہ بات بہت پہلے ثابت ہوچکی ہے کہ رحم مادر میں موجود بچے حمل کے آخری تین مہینوں میں نہ صرف اپنی ماں کی آواز پہچاننا شروع کر دیتے ہیں بلکہ وہ اپنی مادری اور دیگر زبانوں میں تمیز بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی معلوم ہو چکی ہے کہ نومولود بچے اپنی پیدائش کے چند مہینوں کے اندر ہی رونے کے دوران اپنی آواز میں اتار چڑھاؤ بھی سیکھ جاتے ہیں۔
خاتون محقق ورمکے کے مطابق اس سلسلے میں اب تک خیال یہ تھا کہ نومولود بچے اپنے آوازیں نکالنے کے عمل کو شعوری طور پر کنٹرول نہیں کرسکتے۔ بلکہ ان کے رونے میں آواز کا زیر و بم محض ان کے سانس لینے کے دوران پیدا ہونے والے دباؤ کا مرہون منت ہوتا ہے۔ لیکن یہ مفروضہ اب غلط ثابت ہوگیا ہے۔
میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ہیومن کوگنیٹیو اینڈ برین سائنسز سے تعلق رکھنے والی محققہ انگیلا فرائیڈیریسی نے اس تحقیق کے لئے خاص طور پر جرمن اور فرانسیسی بچوں کے انتخاب کی وجہ یہ بتائی کہ ان دونوں زبانوں کے لب ولہجے، ردھم اور زیر و بم میں فرق بہت نمایاں ہے۔ فرانسیسی زبان میں زیادہ الفاظ ایسے ہیں جن کو ادا کرتے ہوئے بولنے والا ان کے آخری حصے پر stress یعنی دباؤ دیتا ہے جس سے تان اوپر جاتی ہے۔ جبکہ جرمن زبان میں بات اس کے برعکس ہے۔
مثال کے طور پر فرانسیسی بچے "پا پا" بولتے ہوئے پہلے ’پا‘ کو آہستہ یا نرم انداز سے ادا کرتے ہیں جبکہ دوسرے ’پا‘ کو ادا کرتے ہوئے سُر بلند ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف جرمن بچے اس کے برعکس پہلے ’پا‘ پر زیادہ سٹریس دیتے ہیں اور دوسرا ’پا‘ قدرے نرم انداز سے بولتے ہیں۔ اور یہ بالکل ان کی مادری زبان کے عین مطابق ہوتاہے۔
محققین کے مطابق زبان کے سُروں سے متعلق ابتدا میں ہی پیدا ہوجانے والی یہ حساسیت دراصل بعد ازاں ان کے لئے مادری زبان سیکھنے کے عمل میں بہت معاون ہوتی ہے۔
کیتھلین ورمکے کا کہنا ہے کہ بچوں میں زبان سیکھنے سے متعلق ان نئی معلومات سے دراصل بچوں میں بولنے کے حوالے سے کسی بھی خرابی کی بروقت تشخیص میں مدد ملے گی۔ نتیجتاﹰ اس طرح کی کسی خرابی کی صورت میں اسے ابتدا میں ہی بذریعہ علاج درست کیا جاسکے گا۔
ورمکے اور ان کے ساتھی محقق اپنے تحقیقی نتائج کو مزید پرکھنے کے لئے اب وسیع پیمانے پر مزید تحقیق کر رہے ہیں۔ اس کے لئے وہ پہلے ہی دنیا کے مختلف ملکوں کے بچوں کے رونے کی آوازیں ریکارڈ کر چکے ہیں اور اب ان کا تجزیہ جاری ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک