بھارت اب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا موسم بھی بتانے لگا
7 مئی 2020بھارت کے محکمہ موسمیات نے موسم سے متعلق اپنے روزانہ کے بلیٹن میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اورگلگت بلتستان کے موسم کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں گلگت بلتستان میں انتخابات کی اجازت دی تھی اور اطلاعات کے مطابق بھارت نے اسی کے رد عمل میں یہ تازہ اقدامات کیے ہیں۔
نئی دہلی میں واقع بھارتی محکمہ موسمیات نے اس ہفتے سے اپنے یومیہ بلیٹن میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لداخ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مظفرآباد اور گلگت بلتستان کو بھی شامل کر لیا ہے اور ان خطوں کے موسم کی پیشن گوئی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔محکمہ موسمیات کے حکام نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پانچ مئی سے یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور محکمہ کی ویب سائٹ پر یہ تبدیلیاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
جموں، کشمیر، لداخ اورگلگت بلتستان بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک دیرینہ متنازع مسئلہ رہا ہے۔ بھارت کا دعوی ہے کہ خطہ کشمیر کا پورا علاقہ بشمول گلگت بلتستان بھارت کا حصہ ہے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت نے بذریعہ طاقت کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے اور کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کرتا ہے۔ حال ہی میں پاکستانی سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان میں انتخابات کی اجازت دی تھی اور اطلاعات کے مطابق بھارت نے اسی کے رد عمل میں یہ اقدامات کیے ہیں۔ اس سے قبل بھارت نے اپنے نقشے میں بھی تبدیلی کی تھی اور مظفرآبادا وراب گلگت بلتستان بھارت کے نقشے کا حصہ ہیں۔
پاکستانی سپریم کورٹ نے تیس اپریل کو گلگت بلتستان کی حکومت سے متعلق 2018 کے آرڈر میں ترمیم کی اجازت دی تھی تاکہ وہاں آئندہ ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے راستہ ہموار ہو سکے اور انتخابی عمل کے مکمل ہونے تک ایک عارضی حکومت تشکیل دی جا سکے۔ حالانکہ گلگت بلتستان میں انتخابات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن بھارت نے اس فیصلے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سفارتی سطح پر احتجاج کیا تھا۔
بھارتی وزارت خارجہ نے ایک سینئر پاکستانی سفارت کار کو اپنے دفتر میں طلب کرکے اسے بتایا تھا کہ ''جموں کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان سمیت تمام علاقے بھارت کے جزوء لا ینفک ہیں۔ بھارت اس طرح کی کارروائیوں اور بھارت کے جموں و کشمیر کے جن علاقوں پر پاکستان کا غیر قانونی قبضہ ہے اس میں تبدیلیاں کرنے کی اس کی مسلسل کوششوں کو یکسر مسترد کرتا ہے۔''
بھارت میں مودی کی حکومت نے گزشتہ برس آناً فاناً کشمیر کو حاصل نہ صرف خصوصی اختیارات ختم کر دیے تھے بلکہ اس کا ریاستی درجہ ختم کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا تھا۔ بھارت نے کشمیر کے تمام بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا اور عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کا پہرہ لگا دیا تھا۔
فون، موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کو معطل کرتے ہوئے وادی کشمیر کے تقریبا ًتمام علاقوں میں کرفیو جیسی بندشیں عائد کر دی گئی تھیں۔ کئی مہینوں سے لوگ وہاں کرفیو جیسی صورت حال میں رہ رہے تھے کہ کورنا کے سبب لاک ڈاؤن نافذ کرنا پڑا اور حکومت کی جانب سے عوام پر اب بھی بہت سی پابندیاں نافذ ہیں۔