بھارت اور چین کے درمیان اب ایک اور نیا تنازع
4 اپریل 2023چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کی شہری امور کی وزارت نے اروناچل پردیش کے گیارہ مقامات کے نام چینی، تبتی اور پینئن زبان میں رکھنے کی منظوری دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چین کی کابینہ کی اسٹیٹ کونسل کے ضابطوں کے تحت ان ناموں کو تبدیل کیا گیا ہے۔
یہ تیسرا موقع ہے جب چین نے بھارت کی شمالی مشرقی ریاست اروناچل پردیش میں مزید گیارہ مقامات کے نام تبدیل کردیے ہیں۔ چین اسے تبت کا جنوبی حصہ، زنگان، کہتا ہے۔
چینی صدر کا ’تاریخی‘ دورہ تبت، بھارت کے لیے پیغام
بیجنگ نے اس سے قبل سن 2017اور سن 2021میں اروناچل پردیش کے مختلف مقامات کے نام تبدیل کیے تھے۔ سن 2017میں تبتیوں کے روحانی رہنما دلائی لامہ کے اروناچل پردیش دورے کے بعد بیجنگ نے چھ علاقوں کے نام بدل کیے تھے جب کہ سن 2021 میں 15مقامات کے نام تبدیل کردیے تھے۔
'چین امیت شاہ کے دورہ اروناچل پردیش کا مخالف ہے‘
اتوار کے روز چین نے جن 11مقامات کے نام تبدیل کیے ہیں ان میں پانچ پہاڑی چوٹیاں، دو زمینی علاقے، دو رہائشی علاقے اور دو ندیاں شامل ہیں۔
بھارت کا ردعمل
بھارت نے چین کی جانب سے اروناچل پردیش کے گیارہ علاقوں کے ناموں کو تبدیل کیے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست بھارت کا حصہ تھی اور ہمیشہ اٹوٹ حصہ رہے گی اور چین کی جانب سے نئے نئے نام "ایجاد "کرلینے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باغچی نے چین کے اس اقدام کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا، "ہم نے یہ رپورٹیں دیکھی ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب چین نے اس طرح کی کوشش کی ہے۔ ہم اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔"
مودی حکومت چین کے مسئلے پر بحث سے خوف زدہ کیوں ہے؟
انہوں نے مزید کہا،" اروناچل پردیش بھارت کا اٹوٹ حصہ اور جزو لاینفک رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ نام ایجاد کرکے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔"
نام تبدیل کرنے کے پیچھے کیا مقصد کارفرما ہے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متنازع مقامات کے نام تبدیل کرنے کا بیجنگ کا مقصد دراصل "ان علاقوں پر چینی دعووں کو مضبوط کرنے کی کوشش اور اپنے دعووں کے حق میں ثبوت تیار یا تبدیل کرنے کی کوشش ہے تاکہ اگر بین الاقوامی عدالت میں خودمختاری کے حوالے سے کوئی کیس دائر ہوتو بیجنگ اسے اپنی تائید میں پیش کرسکے۔"
تجزیہ کاروں کے مطابق اروناچل پردیش کے علاوہ بیجنگ جنوبی بحیرہ چین اور مشرقی بحیرہ چین کے سلسلے میں بھی یہی کچھ کرچکا ہے۔
بھارت اور چین کے مابین صورتحال نازک اور خطرناک ہے، جے شنکر
چین کی طرف سے یہ متنازع اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب چین کے نئے وزیر دفاع جنرل لی شانگفو اسی ماہ بھارت کے دورے پر آنے والے ہیں۔ وہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے وزرائے دفاع کی میٹنگوں میں شرکت کریں گے۔ چین کے وزیر خارجہ قن گینگ بھی مئی میں ایس سی اوکے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے بھارت آئیں گے۔
.