1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: مظاہرہ کرنے والے مسلمانوں کے مکانات بلڈوز

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
13 جون 2022

ریاست اتر پردیش کی حکومت نے آلہ آباد کے ایک مسلم رہنما کے دو منزلہ مکان کو مسمار کر دیا۔ ان پر اہانت رسول کے خلاف مظاہرے کا اہتمام کرنے کا الزام ہے۔ کئی حلقوں نے اس اقدام کو قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Cc2x
Indien I Proteste I Islam
تصویر: Md Rafayat Haque Khan/ZUMAPRESS/picture alliance

بھارت کی ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز بیانات کے خلاف اب مسلمانوں کے مظاہرے تقریبا رک چکے ہیں، تاہم اس حوالے سے ہونی والی گرفتاریوں اور کارراوئیوں کے حوالے سے مسلم برادری خاصی برہم ہے۔

اب تک دو مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ درجنوں زحمی ہوئے۔ اس سلسلے میں اب تک سینکڑوں مسلمانوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، اور اب بھی پولیس کی کارروائی جاری ہے۔ 

اہانت پیغمبر کے  معاملے میں ویسے تو تقریبا ملک کے تمام بڑے شہروں میں مظاہرے ہوئے تاہم، مظاہرین کے خلاف سب سے زیادہ سختی ریاست اتر پردیش میں کی جا رہی ہے، جہاں بعض مظاہرین کے مکانات پر بلڈوزر چلانے کے ساتھ ہی، سخت ترین قوانین کے تحت، تقریبا ساڑھے تین سو مسلمانوں کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔

گزشتہ روز آلہ آباد شہر میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے ایک رہنما جاوید محمد کے دو منزلہ مکان کو مسمار کرنے کے لیے گھنٹوں کارروائی چلتی رہی۔ اس سے قبل اسی طرح کانپور میں مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی تھی اور مسلمانوں کے کئی مکانات کو گرا دیا گیا تھا۔

پو پی پولیس کا الزام ہے کہ جمعے کے روز الہ آباد شہر میں ہونے والے مظاہرے کا اہتمام جاوید محمد نے ہی کیا تھا۔ ان کے مکان کی مسماری سے قبل ہی انہیں سخت ترین قانون کے تحت گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جاوید محمد ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما ہونے کے ساتھ ہی، معروف کارکن آفرین فاطمہ کے والد ہیں، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طالبہ ہیں۔

آفرین فاطمہ شہریت سے متعلق مودی حکومت کے متنازعہ قانون سی اے اے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں پیش پیش رہی تھیں۔ پولیس کا کہنا ہے پر تشدد مظاہروں میں ان کے کردار کے بارے میں بھی جانچ کی جا رہی ہے۔

پولیس کا دعوی ہے کہ مکان کی مسماری سے قبل جاوید کو نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ ان کا مکان غیر قانونی طور پر تعمیر ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ نوٹس محض ایک دن پہلے دیا گيا تھا۔   

تاہم جاوید کے وکلاء نے الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو تحریر کردہ ایک خط میں پولیس کے دعوؤں کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ایک بار حکومت نے اصولوں پر عمل نہیں کیا اور مسماری غیر قانونی تھی۔

ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ جاوید محمد اس گھر کے مالک نہیں تھے جسے منہدم کیا گیا ہے اور یہ مکان ان کی اہلیہ کے نام پر ہے، جنہیں حکام نے غیر قانونی تعمیرات کا کوئی نوٹس تک نہیں دیا۔

Indien I Proteste I Islam
تصویر: Debarchan Chatterjee/Zumapress/picture alliance

یوگی حکومت پر تنقید

اس دوران کئی سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں نے یو پی حکومت کے ان اقدام پر ایک بار پھر سے سخت نکتہ چینی کی ہے اور بغیر کسی عدالتی کارروائی کے حکومت کے ان اقدام کو غیر آئینی بتایا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گوند ماتھر نے معروف انگريزی اخبار انڈین ایکسپریس سے بات چيت میں اسے مکمل طور پر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یہ کوئی تکنیکی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ قانون کی حکمرانی کا سوال ہے۔"

ان کا کہنا تھا، "اگر آپ ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لیں کہ تعمیر غیر قانونی تھی اور ایسی غیر قانونی تعمیرات میں تو کروڑوں بھارتی زندگی گزارتے ہیں، تو بھی یہ جائز نہیں ہے کہ آپ اتوار کو اس وقت مکان تباہ کر دیں جب اس کے مکین پولیس کی حراست میں ہوں۔"

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی مسلمانوں کے مکانات پر بلڈوزر چلوانے کے اس فیصلے کے لیے ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں۔

ایک ریلی سے خطاب کے دوران انہوں نے سوال کیا، "یو پی کے وزیر اعلیٰ کیا اب الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے ہیں۔ کیا اب وہ خود ہی کسی کو بھی مجرم قرار دے کر بطور سزا ان کے مکانات کو گرائیں گے؟"

Proteste Indien | India protest
تصویر: Subrata Goswami/DW

معاملہ عدالت میں

بھارت میں، جہاں بھی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اقتدار میں ہے، وہاں مسلمانوں کے خلاف اس طرح بلڈوزر کا استعمال اب ایک عام بات ہوتی جا رہی ہے، جس پر کئی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی ہوتی رہی ہے تاہم اس کے استعمال میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس کی ابتدا یو پی کے وزیر اعلی یوگی نے چند برس قبل اس وقت کی تھی جب شہریت سے متعلق مودی حکومت کے متنازعہ قانون کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا تھا۔ اس وقت بھی مسلم کارکنان کے مکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس برس بھی جب ہندوؤں کے تہوار رام نومی کے موقع پر کئی ریاستوں میں ہندو مسلم فسادات بھڑک اٹھے، تو دہلی اور ریاست مدھیہ پردیش سمیت کئی مقامات پر مسلمانوں کے مکانات کو منہدم کر دیا گیا۔ اہانت پیغمبر کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے اس کا سب سے زیادہ استعمال یو پی کے کانپور اور الہ آباد میں کیا گیا ہے۔

اس کے خلاف ریاستوں کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں تاہم اس پر ابھی تک سماعت نہیں ہو سکی اور سب کی سب التوا کا شکار ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق عدالتی نظام کے بغیر یونہی کسی کو اس طرح کی سزا دینا جمہوری نظام کے منافی ہے۔

مندر پر حملہ مقامی ہندو نقل مکانی پر مجبور

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید