بھارت: توہین رسالت کے خلاف مظاہرے اور تشدد میں ہلاکتیں
11 جون 2022بھارت میں حکمراں جماعت بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز بیانات کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ روز نماز جمعہ کے بعد اچانک شروع ہوا، جو سنیچر کے روز بھی ملک کے بعض حصوں میں جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق سنیچر کو کولکتہ شہر کے ہاؤڑا میں مظاہرین اور فورسز کے درمیان تازہ جھڑپیں بھی ہوئیں۔
جمعے کے روز ریاست اتر پردیش(یو پی)، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، مہا راشٹر، گجرات، کشمیر اور جنوبی بھارت سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں مظاہرے ہوئے، جن کے دوران کئی علاقوں میں تشدد بھی پھوٹ پڑا۔ رانچی میں مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے پولیس نے گولیاں چلائیں اور فائرنگ میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔
پولیس حکام کے مطابق بہت سے دیگر زخمی افراد کو ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے اور اس بات کی تفتیش شروع کی گئی ہے کہ پولیس کو بھیڑ منتشر کرنے کے لیے، جب ہوا میں فائر کرنے کی اجازت دی گئی تھی، تو مظاہرین گولی لگنے سے کیسے ہلاک ہوئے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے جن رہنماؤں پر پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز باتیں کہنے کا الزام ہے، ان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ تاہم ان کے خلاف کارروائی کے بجائے، پارٹی کی ایک رہنما اور رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر نے اہانت رسول کے ملزمین کا دفاع کیا ہے۔
مظاہروں کا سلسلہ
گزشتہ روز نماز جمعہ کے بعد بھارت کے بیشتر شہروں میں اچانک مظاہرے پھوٹ پڑے، جسے پولیس فورسز نے سختی سے دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بعض علاقوں میں فورسز اور مظاہرین کے درمیان پتھر بازی بھی ہوئی۔
دہلی میں پولیس حکام نے بتایا ہے کہ جامع مسجد کے باہر جو مظاہرہ ہوا اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گيا ہے اور اس سلسلے میں اب تک درجنوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق مقدمہ کووڈ 19 سے متعلق عائد بندشوں کی خلاف ورزی کرنے پر درج کیا گیا ہے۔
لیکن سب سے زیادہ گرفتاریاں ریاست یوپی میں ہوئی ہیں، جہاں آلہ آباد شہر میں پتھراؤ کے واقعات پیش آئے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے اب تک تقریبا دو سو افراد کو حراست میں لیا ہے اور باقی بہت سے دیگر افراد کو گرفتار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اس سلسلے میں سینیئر عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ کی اور انہیں ہدایت دی ہے کہ ’’ریاست میں تشدد اور غیر قانونی مظاہروں کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔‘‘
پولیس نے یو پی میں جمعے کی مناسبت سے پہلے ہی سے اضافی انتظامات کیے تھے اور احتجاج روکنے کی تمام کوششیں کی گئیں۔ تاہم اس کے باوجود لکھنؤ، مراد آباد، کانپور اور آلہ آباد سمیت ریاست کے تمام بڑے شہروں میں مظاہرے ہوئے۔
گزشتہ روز بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں بھی اسی معاملے پر احتجاجی مظاہروں کے سبب دو برادریوں میں تصادم شروع ہو گيا تھا، جس کی وجہ سے حکام نے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ تصادم کی ابتدا دو فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ پرتشدد جھڑپوں کی وجہ سے ہوئی تھی تاہم کشیدگی اتنی زیادہ پھیل گئی کہ متاثرہ علاقوں میں فلیگ مارچ کے لیے فوج کو طلب کرنا پڑا۔ حکام نے کرفیو کے نفاذ کے ساتھ ہی متعدد حساس علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز کو بھی معطل کر دیا تھا۔
توہین رسالت کا معاملہ
تقریبا دو ہفتے قبل بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کی ایک قومی ترجمان نوپور شرما نے ٹی وی پر ایک بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے حوالے سے اہانت آمیز باتیں کہی تھیں، جس سے مسلم طبقہ کافی ناراض ہے اور اس کے خلاف بھارت کے دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تاہم کوئی کارروائی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے چند روز بعد ہی بی جے پی کےایک اور رہنما نے اپنے ٹویٹ پیغامات میں پھر سے ایسی باتیں کیں جن سے پیغمبر اسلام کی توہین ہوتی ہے۔
تاہم چند روز قبل جب کئی مسلم ممالک نے اس پر سخت احتجاج کیا اور اپنے ہاں بھارتی سفیروں کو بھی وضاحت کے لیے طلب کیا، تو بی جے پی نے تقریباً دس روز گزر جانے کے بعد نوپور شرما کی پارٹی رکنیت معطل کر دی تھی جبکہ ایک دوسرے رہنما نوین کمار جندل کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔
تاہم بھارت کی بہت سی مسلم تنظیمیں بی جے پی کے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اس پورے واقعے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہی ہیں اور ملزمین کو گرفتار کرنے کی مانگ کر رہی ہیں۔