بھارت خود کو اپنی ہی نوآبادی بناتا جا رہا ہے، ارون دتی رائے
12 ستمبر 2017ارون دتی رائے کو 2014ء میں معروف امریکی جریدے ’ٹائم‘ نے دنیا کی 100 بااثر ترین شخصیات کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے انہیں ’بھارت کے ضمیر‘ کا نام بھی دیا تھا۔ اس بھارتی مصنفہ کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر بھی قائم ہے کہ وہ ایک ’ایسی باضمیر آواز‘ ہیں، جو کبھی ان سنی نہیں جاتی۔
ارون دتی رائے کی فکشن کی دوسری کتاب، جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا، کی تقریب رونمائی وفاقی جرمن دارالحکومت کے ’ہاؤس آف برلن فیسٹیولز‘ میں منعقد ہوئی، جس میں ہزاروں کی تعداد میں حاضرین موجود تھے، جنہوں نے اس بھارتی ادیبہ کا انتہائی پرجوش استقبال کیا۔
ارون دتی روئے کو پاکستان مدعو کرنے کی تجویز
ارون دتی رائے پر شر انگیز بیان بازی کا الزام
کشمیر کے معاملے پر اروندھتی رائے کے بیانات موضوع بحث
اس تقریب میں ہزاروں کی تعداد میں شرکاء کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ بھارت کے اندر اور بیرونی دنیا میں جہاں ایک بااثر مصنفہ کے طور پر ارون دتی رائے کا بڑا احترام کیا جاتا ہے، وہیں پر انہیں اقتصادی عالمگیریت کی مخالف ایک بہت پرجوش شخصیت کے طور پر بھی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
55 سالہ رائے کے نئے ناول کا نام ’انتہائی خوشی کی وزارت‘ (The Ministry of Utmost Happiness) ہے۔ اسی تقریب میں حاضرین کے لیے ان کے اس ناول کے جرمن ترجمے کے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے گئے۔ یہ اقتباسات معروف جرمن اداکارہ ایوا ماتھیس نے پڑھ کر سنائے، جو ارون دتی رائے کے ساتھ ہی اسٹیج پر موجود تھیں۔
اردون دتی رائے کا پہلا ناول ’چھوٹی اشیاء کا خدا‘ یا The God of Small Things بیس برس قبل شائع ہوا تھا، جو انتہائی کامیاب رہا تھا۔
اروندھتی رائے کی کانفرنس میں انتہا پسندوں کی ہنگامہ آرائی
’سیکولر بھارت کی خاطر‘ اورن دھتی رائے بھی سراپا احتجاج
برلن کے بین الاقوامی ادبی میلے کے دوران ابھی حال ہی میں اس تقریب کو شرکاء یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ رائے کے پہلے ناول کے بعد ان کا دوسرا ناول منظر عام پر آنے میں بیس برس کا عرصہ کیوں لگا؟
اس بارے میں رائے نے تقریب کے شرکاء کو بتایا، ’’جب میں نے اپنا پہلا ناول لکھا جو انتہائی کامیاب رہا تھا، تو اس کے کچھ ہی دیر بعد بھارت میں ہندوؤں کی برتری کی حامی دائیں بازو کی ایک ایسی بنیاد پرست جماعت اقتدار میں آ گئی، جس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس نے کئی ایٹمی دھماکے کیے، جن پر بھارت میں بہت خوشیاں منائی گئیں۔‘‘
اردون دتی رائے نے کہا، ’’تب میری تصویریں ہر میگزین کے ٹائٹل پر شائع ہوتی تھیں اور مجھے نئی بھارتی سپر پاور کے چہرے کے طور پر مارکیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ مجھے یہ بات بہت بری لگی، میں نے اس کی مخالفت بھی کی، جسے اس دور کے حکمرانوں نے پسند نہیں کیا تھا۔‘‘
اردون دتی رائے کے بقول انہیں اس بات پر بھی بہت افسوس تھا کہ وہ ایک ایسے ملک میں کامیاب مصنفہ مانی جا رہی تھیں، جہاں تب بہت سی تکلیف دہ باتیں کی جا رہی تھیں اور کئی عجیب وغریب کام ہو رہے تھے۔
رائے کے مطابق ان کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ وہ ایک مصنفہ کے طور پر اپنے ملک میں رہیں اور اس کی عوامی زندگی میں دلچسپی لیں، نہ کہ کوئی ایسی شخصیت بن جائیں جو اپنی بیسٹ سیلر کتابوں اور ادبی میلوں کے مابین کہیں اپنی زندگی گزارتی ہو۔
اردون دتی رائے نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ آج کا بھارت خود کو ’اپنی ہی نوآبادی‘ بناتا جا رہا ہے، ’’جہاں ملکی فوج، نیم فوجی دستے اور عسکری تنظیمیں معاشرے کے غریب ترین اور سب سے پسماندہ شہریوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، اور جہاں ہر روز اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے والوں کا قتل کیا جا رہا ہے۔‘‘