1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت:غیرملکیوں کی ملک بدری، مسلمانوں کے ساتھ غیرانسانی رویہ

جاوید اختر، نئی دہلی
10 ستمبر 2024

آسام میں گزشتہ ہفتے 28 مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر ڈیٹینشن کیمپ میں ڈال دیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4kRzr
 این آر سی اور سی اے اے قانون کے خلاف پورے بھارت میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے
این آر سی اور سی اے اے قانون کے خلاف پورے بھارت میں زبردست مظاہرے ہوئے تھےتصویر: DW/M. Javed

'فارنرز ٹریبونل' کی جانب سے بنگلہ بولنے والے 28 مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دییے جانے کے بعد آسام کے ضلع بارپیٹا سے گرفتار کرکے ٹرانزٹ کیمپوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کی سخت مذمت کی ہے اور اسے مسلمانوں کے ساتھ تفریقی سلوک اور غیرانسانی رویہ قرار دیا ہے۔

بھارتی شہریت: متنازعہ قانون کا نفاذ، مسلمانوں کا سخت رد عمل

بھارتی ریاست آسام میں مسلم میرج لاء منسوخ، مسلمانوں کی طرف سے تنقید

جماعت اسلامی ہند کے رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن محمد شفیع مدنی نے بارپیٹا کا دورہ کرنے کے بعد ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پورے واقعے کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان افراد کو غیر ملکی قرار دینے اور ٹرانزٹ کیمپوں میں بھیجنے کے لیے قانون کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا، "انسانی حقوق تو چھوڑیے یہ تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو پکڑ کر ڈیٹینشن کیمپ میں ڈال دیا گیا وہ بہت غریب ہیں، ناخواندہ ہیں اور انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔"

مدنی کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، حکومت ان کے قریبی رشتے داروں اور گھر والوں کو بھارتی شہری قرار دیتی ہے۔

بھارت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، امریکہ

آسام میں مساجد، مدارس سے متعلق بی جے پی حکومت کی نئی پالیسی

آل آسام مائناریٹیز اسٹوڈنٹس یونین اور ریاست کی دیگر تنظیموں نے ان گرفتاریوں پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ جب ان افراد کے اہل خانہ بھارتی ہیں تو وہ غیر ملکی کیسے ہو سکتے ہیں؟

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے رویے کے باوجود قانونی راستہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے رویے کے باوجود قانونی راستہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہےتصویر: DW/A. Ansari

شفافیت کا فقدان

محمد شفیع مدنی کے مطابق حکومت نے اس کام کے لئے جو فارنرز ٹریبونل بنایا ہے اس میں شفافیت کا فقدان ہے۔ اور وہ جو فیصلے کر رہی ہے اس میں تعصب کی آمیزش صاف طور پر نظر آتی ہے۔ اور من مانے طریقے پر کیے گئے فیصلے کے پیچھے سیاسی ہاتھ  ہونے کا واض‍ح احساس ہوت‍ا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت کا خیال تھا کہ جانچ کے بعد مسلمانوں کی بڑی تعداد غیر ملکی ثابت ہو گی لیکن آسام میں این آر سی ریکارڈ کے مطابق غیر ملکی قرار دئے گئے لوگوں میں دو تہائی ہندو اور ایک تہائی مسلمان ہیں۔

مدنی کا کہنا تھا،"جب قانون نافذ کرنے کا وقت آیا تو ٹریبونل نے صرف ایک کمیونٹی یعنی مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا۔"

آسام میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔

محمد شفیع مدنی نے کہا کہ ٹریبونل کا حکم گوکہ حتمی نہیں ہوتا بلکہ متاثرین کے پاس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے متبادل موجود ہوتے ہیں۔ لیکن جن 28 مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر ڈیٹینشن کیمپوں میں بھیج دیا گیا انہیں قانونی مدد حاصل کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔

آسام میں بی جے پی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما
آسام میں بی جے پی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرماتصویر: Prabhakarmani Tewari /DW

ملک بدری کے فیصلے پر حکومت کو سپریم کورٹ کا نوٹس

سپریم کورٹ نے پیر کو روز مرکزی حکومت اور آسام کی ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھا کہ مٹیا میں ٹرانزٹ کیمپ میں قید 200 سے زیادہ غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ کیسے بنارہی ہے اور انہیں کیوں کر ڈی پورٹ کیا جاسکتا ہے؟

جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ آسام میں حراستی مراکز کے حالات سے متعلق ایک عرضی کی سماعت کر رہی تھی۔ اس عرضی میں حراستی مراکز کے حالات کو 'تشویش ناک' اور 'افسوسناک' قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہاں پانی کی مناسب فراہمی، صفائی اوربیت الخلاء وغیرہ کا مناسب نظم نہیں ہے۔

یہ عرضی آسام لیگل سروسز اتھارٹی کے مشاہدات پر مبنی رپورٹ کی بنیاد پر جولائی میں دائر کی گئی تھی۔

محمد شفیع مدنی کا کہنا تھا کہ حکومت کے رویے کے باوجود اس کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ "لیگل پروسیس کے سارے راستے کھلے رہنے چاہئیں۔ لیکن اگر حکومت اسے روکنے کی کوشش کرے گی تو یہ کسی بھی صورت میں مناسب اور درست نہیں۔"