بھارت: قبائلیوں کے لیے ہیروں کی بجائے درخت اہم
1 نومبر 2021اس وقت جب کہ تحفظ ماحولیات پوری دنیا کا ایک انتہائی اہم موضوع بن چکا ہے اور گلاسگو میں اقوام متحدہ ماحولیاتی کانفرنس کے دوران دنیا بھر کے سربراہان مملکت و حکومت سمیت ماہرین ماحولیات ماحول کو بچانے کے لیے اپنی اپنی رائے اور مشورے دے رہے ہیں، وسطی بھارت کے صوبے مدھیہ پردیش کے ایک جنگلاتی علاقے بکسواہا میں قبائلیوں نے ہیرے جیسی قیمتی دولت پر ماحولیات کے تحفظ کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ جنگلوں کو کاٹ کر وہاں سے ہیرے نکالے جائیں لیکن قبائلی دو لاکھ درختوں کو بچانے کی عدالتی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ہیرے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بکسواہا جنگل مدھیہ پردیش کے چھترپور ضلع میں ہے۔ ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ یہاں بھارت کا ہیرے کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ انہوں نے تقریباً 3.42 کروڑ قیراط ہیرے کی موجودگی کا اندازہ لگایا ہے۔ بھارت میں ہیروں کا اب تک کا سب سے بڑا ذخیرہ چھتر پور کے قریب ہی پنّاضلع میں ہے لیکن بکسواہا میں پنّا سے 15 گنا زیادہ ہیرا نکلنے کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ تاہم اسے نکالنے کے لیے تقریباً 383 ہیکٹرپر پھیلے جنگلات کو کاٹنا پڑے گا۔
محکمہ جنگلات کے اندازے کے مطابق اتنے بڑے علاقے پر سوادولاکھ سے زائد درخت موجود ہیں اور ہیرے کی کان کنی کے لیے ان تمام درختوں کو کاٹنا پڑے گا۔ ان درختوں میں سب سے زیادہ تعداد ساگوان کی ہے۔ اس کے علاوہ پیپل، تیندو، جامن، ارجن اور کئی دیگر ادویاتی خصوصیات کے حامل درخت بھی موجود ہیں۔
مدھیہ پردیش حکومت نے ہیرے کی تلاش کے لیے سن 2000 میں آسٹریلیا کی کمپنی ریو ٹینٹو کا متعدد سروے کرایا۔ سروے کے دوران ٹیم کو کچھ مقامات پر کمبر لائٹ پتھر کی چٹانیں دکھائی دیں۔ ہیرا انہیں کمبر لائٹ کی چٹانوں میں ملتا ہے۔
سن 2002 میں ریو ٹینٹو کو بکسواہا کے جنگل میں ہیرے کی تلاش کا کام باضابطہ طورپر سپرد کردیا گیا۔ کمپنی نے تحقیقات کے بعد کان کنی کی تیاریاں شروع کیں لیکن مقامی افراد اور ماہرین ماحولیات کی مخالفت کی وجہ سے ریو ٹنٹو نے سن 2016 میں اس پروجیکٹ سے خود کو الگ کرلیا۔ دو برس قبل سن 2019 میں ا س کی دوبارہ نیلامی کی گئی اور ہیروں کی کان کنی کا لائسنس بھارتی کمپنی ادیتیہ برلا گروپ کی 'ایسیل مائننگ‘ کو مل گیا۔
تاریخی اور ثقافتی اہمیت کا حامل بھی
بکسواہا کے جنگلوں میں حجری دور کی راک پینٹنگز بھی پائی گئی ہیں اور کان کنی کی وجہ سے آثار قدیمہ کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ان اثاثوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ماحولیات کے تحفظ سے وابستہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہیرے کی کان کنی کے سبب نہ صرف سوادو لاکھ سے زیادہ درختوں کو کاٹنا پڑے گا بلکہ حجری دور کی پینٹنگز کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اس کے علاوہ یہ جنگل پنّا ٹائیگر ریزرو سے ملحق ہے اور یہ ٹائیگر کوریڈور میں آتا ہے لہذا شیر اور دیگر جنگلی جانور بھی اس سے متاثر ہوں گے۔
ماحولیات سے وابستہ کارکنوں نے جنگلوں کی کٹائی کے خلاف مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کے بعد عدالت نے جنگلوں کے کاٹنے پر روک لگادی ہے۔
سماجی کارکن اور صحافی آشیش ساگر کا کہنا تھا کہ لوگ ایک طویل عرصے سے جنگلوں کی کٹائی کی مخالفت کررہے ہیں لیکن حکومت ہیروں کی لالچ میں جنگل تباہ کرنے پر مصر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور کمپنی لوگوں کو گمراہ کررہی ہے اور بتارہی ہے کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا جبکہ درختوں کی کٹائی سے ماحولیات کو یقینی طور پر زبردست نقصان پہنچتا ہے۔ اسی لیے پہلے نیشنل گرین ٹرائبیونل اور اب ہائی کورٹ نے اس معاملے کی سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے درختوں کی کٹائی پر روک لگادی ہے۔
ایک دیگر سماجی کارکن امیت بھٹناگر کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں اور قبائلیوں کا ذریعہ معاش جنگلوں پر ہی منحصر ہے اور جنگلوں کے تباہ ہونے سے ان کی روزی روٹی کا بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔