تنازعات سے ماحولیاتی نقصانات مسلسل بڑھ رہے ہیں، ریسرچ رپورٹ
10 اکتوبر 2021بین الاقوامی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس (IEP) نے ماحولیاتی خطرات میں اضافے سے متعلق اپنی اس دوسری سالانہ رپورٹ میں ممکنہ ماحولیاتی نقصانات کے تناظر میں ایک سو اٹھہتر ممالک کا جائزہ لیا ہے۔ ان میں وہ علاقے اور ممالک شامل ہیں، جہاں تنازعات کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل گھمبیر ہو چکے ہیں۔
طوفانوں، سیلابوں، جنگلاتی آگ اور خشک سالی سے لاکھوں انسان بے گھر
ایکولوجیکل تھریٹ رپورٹ
انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی سالانہ رپورٹ میں خاص طور پر تنازعات کے شکار ملکوں کو لاحق ماحولیاتی نقصانات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ ایسے علاقوں اور ممالک کو خوراک کی قلت، پینے کے پانی کی کمیابی، آبادی میں اضافے سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کو بڑھتے درجہ حرارت، قدرتی آفات اور بے موسمی بارشوں کے علاوہ سیلابوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملکی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کسی بھی تنازعے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور ان سے بھی حقوق کا صلب کرنا واضح ہے۔
انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین اسٹیو کلیلیا کے بقول اس رپورٹ میں کوشش کی گئی ہے کہ دنیا تنازعات اور ماحولیاتی نقصانات کے تعلق کا مناسب انداز میں احاطہ کر سکے اور ان کو معلوم ہو سکے کہ تنازعات کس انداز میں ان کے ملک کے وسائل کو ہڑپ کرتے جا رہے ہیں اور ماحولیاتی نقصانات کی شدت کیسے بڑھتی جا رہی ہے۔
ایران میں پانی غائب، لوگ سراپا احتجاج، رپورٹ
شدید خطرے کے شکار علاقے
انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے ایک ڈائریکٹر سیرگے اشٹوربانٹس کے مطابق یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ اس وقت ماحولیاتی خطرات کی زد میں ہیں۔ اشٹوربانٹس نے تیس ممالک کی نشاندہی کی ہے، جہاں ماحولیاتی خطرات کمزور مزاحمتی عمل کی وجہ سے شدید ہو چکے ہیں۔ ان ملکوں میں حکومتی عمل داری بدعنوانی اور ناقص کاروباری ماحول کی وجہ سے کمزور ہوتی جا رہی ہے۔
انہی خطوں میں تین علاقوں کو انتہائی پریشان کن داخلی انتشار اور مسلح حالات کا سامنا ہے۔ اول: ساحل اور قرن افریقہ کی پٹی میں صومالیہ اور موریطانیہ کے قرب و جوار کے ممالک۔ دوم: جنوبی افریقی پٹی کے ممالک انگولا سے مڈغاسکر اور سوم: مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیائی بیلٹ ہے، جس میں پاکستان سے شام تک کے ممالک آتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان علاقوں میں ماحولیاتی خطرات کلائمیٹ چینج کے بغیر پیدا ہیں، جیسا کہ پانی کی کمیابی اور خوراک کی قلت اور یہ مزید تناؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ سن 2050 تک ایسا ہی رہا تو صرف صحارا علاقے کے چھیاسی ملین افراد کو بے گھری کا شکار ہونا پڑے گا۔
بھارت: بارش کے لیے لڑکیوں کی برہنہ پریڈ
تنازعات اور ماحولیات نقصان کا پیچ دار تعلق
اسٹیو کلیلیا نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ تنازعات سے وسائل میں کمی واقع ہوتی ہے اور اس باعث ملکی بنیادی ڈھانچے اور انتظامی نظام کمزور ہو جاتے ہیں اور یہی گراوٹ انجام کار کسی قدرتی آفات کے موقع پر ناکافی ثابت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ نقصان جنگل بردگی اور مال مویشی کی ہلاکتوں کی صورت میں بھی نمودار ہوتا ہے۔ کلیلیا نے ان مختلف ہیتوں کی روشنی میں تنازعات اور ماحولیاتی نقصانات کے تعلق کو بیان کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تنازعات کی وجہ سے مذہبی اور لسانی گروپوں کے درمیان رسہ کشی کا جو سلسلہ شروع ہو تا ہے وہ بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ مسلح کشیدگی ماضی کے دفن شدہ تنازعات کو بھی کھینچ کر باہر لے آتی ہے۔ اس کی مثال کے طور پر انہوں نے صحارا کے علاقے ساحل میں پائے جانے والے مسلح حالات کو پیش کیا۔
یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب اقوام عالم کی یونائیٹد نیشنز کلائمیٹ چینج کی کانفرنس (COP26) میں شریک ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یہ کانفرنس برطانوی علاقے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں رواں برس اکتیس اکتوبر سے بارہ نومبر تک منعقد ہو گی۔
ایلیسٹیئر والش (ع ح/ ا ا)