1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: مہاراشٹر میں ایک ماہ میں 300 کسانوں نے خودکشی کرلی

جاوید اختر، نئی دہلی
3 جنوری 2020

بھارت کی اہم اور خوشحال ریاستوں میں مہاراشٹر کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔ اس خوشحال ریاست میں صرف ایک ماہ کے دوران 300 کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

https://p.dw.com/p/3VgIc
DW Sendung  Eco India Sendung Indian Farm
تصویر: GIZ

ریاست مہاراشٹر کے محکمہ ریونیو کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق سن 2015 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب صرف گزشتہ برس نومبر میں تین سو کسانوں نے خودکشیاں کیں۔ خودکشی کی یہ شرح گذشتہ برس اسی مدت کے مقابلے میں 61 فیصد زیادہ ہے۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سن 2018 کے مہینوں اکتوبر اور نومبر کے درمیان کسانوں کی خود کشیوں کے 186 واقعات درج ہوئے تھے جب کہ ختم ہونے والے سال کے ماہِ نومبر میں یہ تعداد 300 تک پہنچ گئی۔ خودکشی کے سب سے زیادہ 120 واقعات مراٹھواڑہ میں درج کئے گئے جب کہ وردبھ علاقے میں 112 ایسے واقعان کا انذدراج کیا گیا۔

Indien Landwirtschaft Kartoffeln
بھارت کی کئی ریاستوں میں کسانوں کو بہت سی مشکلات نے گھیر رکھا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/P. Adhikary

جنوری سے ستمبر سن 2019 تک خودکشی کرنے والے کسانوں کی مجموعی تعداد 2532 رہی۔

آل انڈیا کسان سبھا کے جنرل سکریٹری اور سابق ممبر پارلیمان اتول کمارانجان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے کئی برسوں سے بھارت میں زرعی شعبہ انتہائی بحران سے دوچار ہے۔ جی ڈی پی میں اس کا حصہ کبھی چار فیصد سے زیادہ ہوا  کرتا تھا جو اب دو فیصد سے نیچے آگیا ہے۔

اتول کار انجان  کے مطابق حکومت نے کسانوں کو ان کے پیداوار کے لیے جو کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) طے کرتی ہے اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا جب کہ زراعت پر لاگت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اتول کمار انجان کے مطابق صورت حال یہ ہے کہ بھارت کے کسانوں کے پاس زراعت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ گیا ہے لیکن غریب کسانوں کے لیے کھیتی باڑی نہایت مشکل ہوگئی ہے۔

Indien Proteste der Bauern
گزشتہ برس آل انڈیا کسان مہا سبھا نے زرعی بحران کے حوالے سے احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھےتصویر: Imago/Hindustan Times/R. Choudhary

اتول کمار انجان نے بتایا کہ نیشنل سیمپل سروے کے مطابق ایک اوسط کسان کنبہ کی ماہانہ آمدنی تین ہزار روپے سے کم ہے جب کہ پورا خاندان کھیتوں میں کام کرتا ہے۔ وہ ساہو کاروں کے قرض کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور حالات اتنے خراب ہوجاتے ہیں کہ انہیں اپنی زندگی ختم کرلینے کے سواکوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔

 اس تشویش ناک صورت حال سے کسانوں کو نکالنے کے حوالے سے آل انڈیا کسان مہا سبھا کے رہنما نے کہا ”کسانوں کے تمام قرضے ایک بار میں معاف کردیے جانے چاہئیں۔ جب حکومت کارپوریٹ گھرانوں کے ایک لاکھ پینسٹھ ہزار کروڑ روپے قرض معاف کرسکتی ہے تو کسانوں کے قر ض کیوں معاف نہیں کرسکتی ہے؟"

اتول کمار انجان نے کہا کہ مہاراشٹر میں بھی کسانوں کی مدد سے پہلے بی جے پی اور اب این سی پی۔ کانگریس۔ شیو سینا اتحاد اقتدار میں آئی ہے لیکن کسی حکومت کو  کسانوں کی حالت سدھارنے میں حقیقی دلچسپی نہیں ہے۔

جاوید اختر، نئی دہلی