بھارت میں احتجاجی کسانوں پر پولیس کا تشدد
2 اکتوبر 2018بھارتی ریاست اتر پردیش گندم اور گنے کی پیداوار کے حوالے سے مشہور ہے لیکن وہاں کے کسانوں کو ان دنوں شدید مالی مسائل کا سامنا ہے۔ منگل دو اکتوبر کے روز اس بھارتی ریاست کے تقریباﹰ پچاس ہزار کسانوں نے حکومت مخالف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے دارالحکومت کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ کو بند کر دیا۔
یہ کسان حکومت سے آسان قرضوں کی فراہمی، سستی بجلی اور ان مل مالکان کے خلاف کارروائی کے مطالبے کر رہے ہیں، جو کسانوں سے گنا تو خرید چکے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک کسانوں کو ان کی فصل کی قیمتیں ادا نہیں کیں۔ دیہی علاقوں میں ملکی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف غم و غصے میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جنہوں نے گزشتہ انتخابات سے پہلے کسانوں کے حالات بہتر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
احتجاج میں شریک کسانوں کے ایک رہنما دھرمیندر ملک کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہماری متعدد درخواستوں کے باوجود حکومت کسانوں کی مؤثر طریقے سے مدد کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اب ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔ ہم نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے نئی دہلی کی طرف احتجاجی مارچ کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
بھارتی شوگر ملیں تقریباﹰ ایک سو پینتیس ارب روپے (قریب دو بلین ڈالر) کی مقروض ہیں۔ یہ کمپنیاں کسانوں سے گنے پہلے ہی خرید چکی ہیں اور اب اس ملک میں اچانک چینی کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے ان مل مالکان کا کہنا ہے کہ وہ کسانوں کو ادائیگیاں کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
بھارت: کسان تحریک نے پرتشدد صورت اختیار کر لی
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں کم قیمتوں کی وجہ سے ملکی کمپنیوں کو چینی برآمد کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
بھارتی میڈیا پر دکھائے جانے والے مناظر کے مطابق کسانوں اور پولیس اہلکاروں میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ان ویڈیوز میں کسانوں کو اپنے ٹریکٹروں کے ہمراہ سکیورٹی رکاوٹیں توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
پولیس نے کسانوں کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ تیز دھار پانی کا بھی استعمال کیا، جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ اپوزیشن کانگریس پارٹی کے مطابق حکومت نے پولیس کو کسانوں پر ’بری طرح تشدد کرنے‘ کی اجازت دے دی ہے۔ کسانوں کے اس احتجاج کا آئندہ برس ہونے والے انتخابات کے حوالے سے موجودہ مودی حکومت پر منفی اثر بھی پڑ سکتا ہے۔
ا ا / م م ( روئٹرز، اے ایف پی)