’بھارت میں خواتین بدستور غیر محفوظ‘
16 دسمبر 2014اس طالبہ کے والدین نے یہ بات اپنی بیٹی پر جنسی حملے کے دو برس مکمل ہونے پر آج منگل کو ایک بیان میں کہی۔ اس موقع پر نئی دہلی میں خواتین کے تحفظ کے موضوع پر تقریبات بھی منعقد کی جا رہی ہیں۔
سولہ دسمبر 2012ء میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک چلتی بس میں ایک لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد سڑک کے کنارے پھینک دیا گیا تھا۔ بعدازاں وہ سنگاپور کے ایک ہسپتال میں دورانِ علاج چل بسی تھی۔
اس واقعے نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس کے ردِ عمل میں حکومت نے جنسی حملوں کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی کی تھی۔ تاہم اس کے باوجود اس نوعیت کے حملوں میں کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوئی۔
جنسی زیادتی کے اس واقعے کے بعد بھارت بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور خواتین کے خلاف تشدد پر قومی سطح پر بحث کا آغاز ہو گیا تھا۔ عالمی سطح پر بھی اس واقعے پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا گیا تھا۔
اس پر جنسی حملے میں ملوث افراد میں سے چار کو گزشتہ برس ستمبر میں سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان میں سے ایک نے قبل ازیں جیل میں بظاہر خود کشی کر لی تھی جبکہ ایک کو کم عمر ہونے کی وجہ سے قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
نئی دہلی میں چلتی بس میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی تیئس سالہ طالبہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کے خلاف نئے اور سخت قانون کے باوجود خواتین پر اب بھی بڑی تعداد میں حملے ہو رہے ہیں اور اس بات پر وہ بہت دُکھی ہیں۔
قانونی وجوہات کی بنا پر ان کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے منگل کو این ڈی ٹی وی نیوز چینل سے بات چیت میں کہا: ’’ہر روز حملے ہو رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’یہ دیکھتے ہوئے، ایسا نہیں لگتا کہ کچھ بدلا ہو۔ سب وہی ہے۔‘‘
منگل کو ہی جاری کیے گئے ایک سروے کے مطابق بھارت میں اکانوے فیصد خواتین کے خیال میں نئے قانونی اقدامات کے باوجود ان کے تحفظ کی صورتِ حال بہتر نہیں ہوئی۔ یہ سروے روزنامہ ہندوستان ٹائمز نے کروایا ہے جس میں دو ہزار پانچ سو ستاون خواتین سے سوالات کیے گئے۔ ان میں سے ستانوے فیصد خود کسی نہ کسی طرح جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا نشانہ رہی ہیں۔