بھارت میں ’کالے دھن‘ کو جائز قرار دینے کی حکومتی مہم
30 ستمبر 2015بھارتی حکومت نے اربوں روپے غیر قانونی طور پر چھپا کر رکھنے والوں کو تین مہینے کی مہلت دی تھی اور بدھ تیس ستمبر اِس مہلت کا آخری دن ہے۔ حکومت نے ایسے افراد کو استثنیٰ دیا تھا کہ وہ اپنا کالا دھن ظاہر کرنے کے بعد جائز حکومتی ٹیکس اور ہلکے جرمانے ادا کر کے موج اڑائیں۔ گزشتہ برس وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے نریندر مودی ہاتھ دھو کر کالا دھن رکھنے والوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اُن کے مطابق تیس ستمبر کے بعد غیر قانونی سرمایہ رکھنے والوں کو سخت قانونی عمل سے گزرنا پڑے گا۔
کئی کاروباری حلقے بھی حکومت کی قانون سازی کو سخت قرار دیتے ہیں اور ان کا بھی اصرار ہے کہ استثنیٰ ابہام میں لپٹا ہوا ہے اور اِس باعث سرمایہ کاروں کو بدستور سزا کا خوف لاحق ہے۔ اِس مہلت کے حوالے سے حکومت بار بار کہہ چکی ہے کہ کالا دھن ظاہر کرنے والوں کے نام ظاہر نہیں کیے جائیں گے اور ویسے بھی حکومتی منشا یہ ہے کہ لوگ اپنی دولت پر سے غیرقانونی سرمائے کی چھاپ ختم کر کے اُسے مرکزی دھارے میں لے کر آئیں تا کہ ملک کو بھی فائدہ ملے۔
حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اب تک 65 ارب روپے ظاہر کیے جا چکے ہیں اور آخری دِن اِس میں بہت ہی زیادہ اضافہ ممکن ہے۔ انکم ٹیکس محکمے کے اہلکار آنند راجن کا کہنا ہے کہ کوئی چھاپے نہیں مارے جائیں گے اور نہ ہی لوگوں کو انکوائری کے چکر میں ڈالا جائے گا بلکہ جو ظاہر کیا جا رہا ہے، اُس پر انکم ٹیکس کا اطلاق کیا جا رہا ہے۔
رواں برس مئی میں بھارتی وزیر خزانہ ارُون جیٹلی نے کہا تھا کہ ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر چھپائے ہوئے غیر قانونی سرمائے کے دن گنے جا چکے ہیں۔ مئی ہی میں قانون سازی کے دوران ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ غیر ممالک میں دولت چھپانا غیرقانونی فعل ہے اور حکومتوں کے مابین تعاون سے ’ٹیکس ہیون‘ ماضی کا قصہ بن گیا ہے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم گلوبل فنانس انٹیگریٹی گروپ کے مطابق سن 2012-13 کے دوران بھارت سے 439 بلین روپے کے مساوی رقوم غیر ممالک منتقل کی گئی تھیں۔ انکم ٹیکس کے ماہر سونو آئیر کا کہنا ہے کہ بلیک مَنی ایکٹ کا ٹارگٹ وہ بھارتی شہری ہیں جنہوں نے اپنی رقوم چھپا رکھی ہیں اور اب وہ اِن رقوم کو ظاہر کر کے خود کو صاف شفاف کر سکتے ہیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ بہت ہی کم لوگوں نے اپنا کالا دھن ظاہر کیا ہے۔ دوسری جانب اسی موضوع پر منعقد کیے گئے ایک فورم میں دہلی ہائیکورٹ کے سابق جج انیل کمار کا کہنا ہے کہ استثنیٰ کا خالی وعدہ کافی نہیں ہے بلکہ حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ کالا دھن رکھنے والوں میں خوف پایا جاتا ہے۔ انیل کمار کے مطابق لوگ تذبذب میں مبتلا ہیں کہ آیا ایسا کرنے سے انہیں بریت ملے گی یا عدالتی کارروائی کا بھی سامنا ہو گا۔