بھارت میں گائیں ٹرانسپورٹ کرنے پر قتل، سولہ ہندو ملزم گرفتار
19 اگست 2016بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے جمعہ انیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ قتل بھارت میں انسانی ہلاکتوں کے سلسلے اور تشدد کے ان واقعات کی تازہ کڑی ہے، جو اس وجہ سے رونما ہوتے ہیں کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں، جہاں گائے کو مقدس مانا جاتا ہے، خود کو گائے کی حفاظت پر مامور رضا کار قرار دینے والے ہندو انتہا پسند ایسے افراد پر مسلح حملے کرتے ہیں، جنہوں نے گوشت کے لیے گائے کو ذبح کیا ہو۔
کئی بھارتی ریاستوں میں اب تک گائے کو ذبح کرنے کے علاوہ گائے کے گوشت کی برآمد پر بھی پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اب تک ایسے واقعات میں زیادہ تر مسلمان شہریوں پر حملوں کی اطلاعات تھیں، کیونکہ مسلمانوں کے لیے گائے کا گوشت کھانا مذہبی بنیادوں پر ممنوع نہیں ہے۔
لیکن بھارت کے مختلف حصوں سے اب یہ رپورٹیں بھی مل رہی ہیں کہ وہاں دائیں بازو کے ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے ایسے ہندو شہریوں پر بھی حملے کیے جانے لگے ہیں، جو مبینہ طور پر گائیوں کو اس مقصد کے لیے کہیں لے جا رہے ہوں کہ بعد ازاں انہیں ذبح کیا جا سکے۔
ایسا ہی ایک تازہ واقعہ جنوبی بھارتی ریاست کرناٹک کے ضلع اڈُوپی میں بدھ سترہ اگست اور جمعرات اٹھارہ اگست کی درمیانی رات پیش آیا، جس میں دائیں بازو کی ایک ہندو تنظیم کے ارکان نے ایک وین پر حملہ کر دیا۔
اس وین میں دو ہندو شہری، انتیس سالہ پروین پجاری اور بائیس سالہ اکشے دیودیگا تین گائیوں کو کہیں لے کر جا رہے تھے۔ اڈُوپی میں ضلعی پولیس کے سربراہ کے ٹی بالاکرشنا نے ڈی پی اے کو بتایا کہ ان ملزمان نے اس وین میں سوار افراد پر اس کے ذریعے ٹرانسپورٹ کی جانے والی گائیوں کی وجہ سے حملہ کر دیا اور انہیں لوہے کی سلاخوں سے اتنا پیٹا کہ بعد ازاں پروین پجاری نامی شہری ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
کے ٹی بالاکرشنا نے ٹیلی فون پر بتایا، ’’ان ملزمان کو شبہ تھا کہ یہ دونوں افراد اپنی وین میں گائیوں کو لے کر کسی مذبحہ خانے کی طرف جا رہے تھے۔‘‘ پولیس کے مطابق شبہ ہے کہ پروین پجاری اور اس کے ہمراہ سفر کرنے والے اس کے دوست پر حملہ انہی ملزمان نے کیا۔
بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی نے بتایا ہے کہ پجاری کاجیکے نامی قصبے کا ایک ہندو دکاندار تھا، جو وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایک مقامی رکن بھی تھا۔ وہ مبینہ طور پر کرائے پر اپنی وین میں گائیوں کی مال برداری کر رہا تھا۔
کرناٹک کے وزیر داخلہ جی پرمیشور کے مطابق یہ واقعہ گائے کی حفاظت کرنے والے ہندوؤں کے ہاتھوں انسانی ہلاکت کا کوئی واقعہ نہیں بلکہ غالباﹰ مویشیوں کی تجارت سے متعلق ایک تنازعے کا نتیجہ تھا۔