’نوٹ بندی‘ کی پہلی سالگرہ پر حکمران اور اپوزیشن میں گھمسان
8 نومبر 2017تاہم حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی آج کے دن کو کالا دھن مخالف دن کے طور پر منا رہی ہے۔ گزشتہ برس آٹھ نومبر کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے رات آٹھ بجے اچانک ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کر کے ایک ہزار اور پانچ سو روپے کے کرنسی نوٹوں کے چلن کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ بھارت میں اسے نوٹ بندی کا نام دیا گیا۔ اس اعلان نے بھارت میں اقتصادی، سماجی اور سیاسی صورت حال یکسر بدل کر رکھ دی اور ملک ان کے اثرات سے اب تک باہر نہیں نکل سکا ہے۔
اس اعلان کے ایک سال مکمل ہونے پر آج حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اس ’تاریخی اقدام‘ کے فائدے گنوا رہی ہے۔ اس کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر سینیئر وزراء تک بیانات دے رہیں اور اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع کیے گئے ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن کانگریس جماعت اسے ’صدی کا سب سے بڑا گھپلہ، منظم لوٹ اور قانونی ڈاکہ‘ قرار دے رہی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ’’میں بدعنوانی اور کالا دھن کو ختم کرنے اور حکومت کی طرف سے کیے گئے کئی فیصلوں کی حمایت کرنے پر بھارت کے عوام کو جھک کر سلام کرتا ہوں۔‘‘
ایک اور ٹوئیٹ میں انہوں نے لکھا، ’’ایک سو پچیس کروڑ بھارتیوں نے فیصلہ کن جنگ لڑی اور جیتی ہے۔‘‘ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک مختصر فلم بھی شیئر کی ہے جس میں نوٹ بندی کے فوائد بتائے گئے ہیں اور لوگوں کو اپنی رائے دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ انہوں نے عوام سے پوچھا ہے کہ ’’بدعنوانی اور کالے دھن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوششوں کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟‘‘
پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹ ختم کرنے کا اعلان
کرنسی نوٹ تبدیل کرانے کا آخری دن، بینکوں کے سامنے قطاریں
کرنسی نوٹوں پر پابندی سے اقتصادی نمو متاثر ہوئی، بھارت
کرنسی نوٹوں پر پابندی سے اقتصادی نمو متاثر ہوئی، بھارتادھر اپوزیشن جماعت کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے حکومت پر حملہ کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا، ’’نوٹ بندی ایک سانحہ ہے۔ ہم ان لاکھوں ایماندار بھارتیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو وزیر اعظم کی طرف سے بغیر سوچے سمجھے اٹھائے گئے اس قدم سے پوری طرح تباہ ہوگئے۔‘‘
ایک اور ٹوئیٹ میں انہوں نے شاعرانہ انداز میں وزیر اعظم کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا، ’’ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے، تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا۔‘‘ تاہم اس ٹوئیٹ پر بی جے پی نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا، کیونکہ اپنے ٹوئٹ میں راہول گاندھی نے جس بزرگ سابق فوجی کی گزشتہ برس کی تصویر شیئر کی ہے وہ اب مودی کے گن گارہا ہے۔
نوٹ بندی کے فائدے بتانے کے لیے یہاں وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے بھی محاذ سنبھالا ہے۔ انہوں نے نوٹ بندی کو جائز، ضروری اور ملک کے حق میں قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے بعد تقریباً 18 لاکھ لوگوں نے اپنے بینک کھاتوں میں اپنی آمدنی سے زیادہ رقم جمع کرائی، جس کی جانچ کرائی جارہی ہے۔ اس سے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ڈیجیٹل لین دین بڑھا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی کمی آئی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ نوٹ بندی آرام سے ہوئی اور اسے پوری دنیا نے دیکھا ہے۔
لیکن یہاں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نوٹ بندی کے دوران بالخصوص غریب طبقے کے افراد کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چند ہزار روپے کے پرانے نوٹ تبدیل کرانے کے لیے لوگوں کو کئی کئی دن بینکوں کے سامنے قطاروں میں کھڑے رہنا پڑا۔ اس صورت حال کے سبب تقریباً ڈیڑھ سو افرادکواپنی جان گنوانا پڑی۔ بے شمار چھوٹے کارخانے اور تجارتیں بند ہوگئیں اور لگ بھگ ڈیڑھ ملین افراد کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
سابق وزیراعظم اور مشہور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر من موہن سنگھ نے آٹھ نومبر کو جمہوریت کے لیے سیاہ دن قرا ردیتے ہوئے نوٹ بندی کے فیصلے پر پارلیمنٹ میں دیے گئے اپنے بیان کو دہراتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک منظم لوٹ اور قانونی ڈاکہ ہے۔‘‘
دریں اثنا سماجی تنظیم ’انہد‘ کی قیادت میں ملک کی 33 غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے کرائے گئے سروے کے مطابق 55 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ نوٹ بندی سے کالے دھن کا خاتمہ نہیں ہوا جب کہ 48 فیصد لوگوں کی رائے میں دہشت گردانہ سرگرمیوں پر بھی اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ انہد کی سربراہ شبنم ہاشمی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’صرف 6.7 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ نوٹ بندی سے عام شہریوں کو فائدہ ہوا جبکہ 60 فیصد لوگوں کے خیال میں اس سے کارپوریٹ سیکٹر کو اور 26.7 فیصد کی نظر میں اس سے سر کار کو فائدہ پہنچا ۔ 65 فیصد لوگوں کی رائے میں نوٹ بندی کے دوران امیر لوگ کبھی بھی لائن میں نہیں لگے جبکہ نوٹ بندی سے 50 فیصد لوگوں کا حکومت پر سے بھروسہ اٹھ گیا۔‘‘